فوجی عدالتوں کو دوام دینے کی تیاریاں....شہریوں کے بنیادی حقوق پر اٹھتے سوالات ۔۔۔!
شیئر کریں
سویلین اداروں میں پراسیکیوشن کی خامیوں کے علاوہ ججوں کی تعداد میں کمی اور ناکافی سیکورٹی جیسے مسائل شامل ہیں
ہنگامی عدالتوں میں تفصیلی سماعت اور تمام حقائق کو پرکھے بغیر دیے گئے بعض فیصلوں میں غلطی کی گنجائش کو نظر انداز نہیںکیاجاسکتا
ایچ اے نقوی
اطلاعات کے مطابق وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ اور تحفظ پاکستان ایکٹ کو باہم ضم کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت دہشت گردی میں ملزمان کے مقدمات کی سماعت کے لیے قائم کی جانے والی خصوصی فوجی عدالتیں جن کی میعاد 7جنوری کو ختم ہورہی ہے ، مستقل شکل اختیار کرلیں گی اور یہ عدالتیں دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کاسلسلہ جاری رکھ سکیں گی،دہشت گردی کی روک تھام اور دہشت گردوں کو روایتی قانونی پیچیدگیوں سے فائدہ اٹھاکر بچ نکلنے کاموقع نہ دینے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں اور ان کے قیام کے لیے پارلیمنٹ سے آئین میں کی گئی 21 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت یہ بات واضح تھی کہ اسے آئین کامستقل حصہ نہیں بنایاجائے گا،اور یہ انتظام صرف وقتی طورپر یعنی 2سال کے لیے کیاجارہاہے اور اس مدت کے دوران قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے اور اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لیے ضروری انتظامات کرنے کاموقع مل جائے گا۔
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے سویلین اداروں میں بڑی خامیاں موجود ہیں جن میں پراسیکیوشن کی خامیوں کے علاوہ ججوں کی ناکافی سیکورٹی جیسے مسائل شامل ہیں،لیکن ان مسائل کی بنیاد پر سول حکومت اپنے تمام شہریوں کو مناسب قانونی عمل سے محروم نہیں کرسکتی اور شہریوں کو انصاف کے مناسب ذرائع فراہم کرنے کی ذمہ داری سے روگردانی نہیں کرسکتی۔
دوباتیںکسی بھی حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل تصور کی جاتی ہیں ،اول شہریوں کے بنیادی حقوق کاتحفظ جس میں ہر شہری کو منصفانہ اور مقدمات کی کھلی سماعت کا حق شامل ہے اور دوسرا شہریوں کو ہنگامی حالت میں بھی تحفظ فراہم کرنا،لیکن پاکستان میں صورت حال کی نزاکت نے شہریوں کے اس حق کو پہلے حق سے متصادم بنادیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں نے پاکستانی شہریوں کی زندگی میں خوف ودہشت پیدا کردی تھی،اور اس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی ایک انجانے عذاب کاشکار ہوکر رہ گئی تھی،جس کی وجہ سے ہر قانون پسند، امن پسند اور معصوم شہری کسی بھی طرح سے اس عذاب سے چھٹکاراحاصل کرنا چاہتاتھا، اس خوفناک اوردحشت ناک صورت حال میں یہ ضروری تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور انھیں بچ نکلنے کاکوئی موقع نہ دینے اور انھیں جلد از جلد سخت سزائیں دے کر دوسروں کے لیے عبرت کاسامان بنانے کے لیے فوجی حکومتوں کاقیام وقت کی ضرورت تھا اور یہی وجہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ سمیت ملک میں کسی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور اسے وقت کی ضرورت سمجھ کر قبول کیا،لیکن یہ ایک مسلمہ امر ہے اور پوری دنیا میں اس پر اتفاق پایاجاتاہے کہ سرسری سماعت کی عدالتیں جمہوری بنیادوںاور مکمل طورپر درست انصاف کی فراہمی کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے۔
ملک کے کسی بھی ادارے کو جس کااحتساب آسان نہ ہو،لامحدود اختیارات دیناجو فوجی عدالتوں کوحاصل ہیں، وقتی طورپر حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے تو قابل قبول ہوسکتے ہیں لیکن اسے مستقل حیثیت دینا کسی طوربھی دانشمندی نہیں ہے اورایسا کرنا بنیادی جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے دیے گئے بعض فیصلوں کی عوامی حلقوں میں کھل کر مخالفت بھی سامنے آئی اور بعض فیصلوں پر اعتراضات بھی اٹھائے گئے ،یہ صحیح ہے کہ ہمارے فوجی افسران اورجوانوں نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے بے مثال جدوجہد کی ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور عوام کسی حد تک بے خوفی کی فضا میں سانس لینے لگے ہیں لیکن کسی بھی مقدمے کی تفصیلی سماعت اور تمام حقائق کو پرکھے بغیر دیے گئے بعض فیصلوں میں غلطی کی گنجائش کو نظر انداز نہیںکیاجاسکتا،اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اب جبکہ دہشت گردی کے حوالے سے حالات بڑی حد تک کنٹرول میں آچکے ہیں ،پاک فوج کے افسران کو مزید آزمائش میںمبتلا کرنے سے گریز کرے اور دہشت گردوں کی گرفتاری اور ان کی کمین گاہوں کو ختم کرنے کے بنیادی کام تک محدود رکھ کر مقدمات کی سماعت عام عدالتوں میں کرنے کاانتظام کرے۔ اس حوالے سے مقدمے کو زیادہ طول دینے سے بچانے کے لیے دہشت گردی کے مقدمات کا ایک مقررہ مدت کے اندر فیصلہ کرنے کویقینی بنانے کے لیے قانون میں ترمیم بھی کی جاسکتی ہے اورعدالتوں پر سے بوجھ کم کرنے کے لیے مزید ججوں کاتقرر بھی کیاجاسکتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے گزشتہ برسوں کے دوران دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیںجن میں اس حوالے سے کی جانی والی قانون سازی بھی شامل ہے لیکن بغور جائزہ لیاجائے تو یہ ظاہرہوتاہے کہ حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے عوام کے بنیادی حقوق تو محدودہوئے ہیں لیکن ان سے دہشت گردوں کی بیخ کنی میں کوئی خاص پیش رفت ممکن نہیں ہوئی ،مثال کے طورپر دہشت گردوںکے خلاف حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بعض لوگ حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کی حمایت ،تعاون اور مدد سے نہ صرف الیکشن لڑتے ہیں بلکہ اس میں کامیابی بھی حاصل کرلیتے ہیں ،کالعدم تنظیموں کی بھرپور حمایت سے کامیابی حاصل کرنے والے ان منتخب نمائندوں سے کیاتوقع کی جاتی ہے، اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔اس صورتحال سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کی کاوشوں اوردعووںپرایک بڑاسوالیہ نشان کھڑاہوجاتاہے ۔جب مولانا عبدالعزیز دارالحکومت کے وسط میں بیٹھ کر داعش کی حمایت کابرملا اظہار کرتے ہوئے حکومت کودھمکیاں دیں اور حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہواور تحریک انصاف یا کسی بھی دوسری جماعت کے احتجاج کو روکنے کے لیے فوری طورپر دفعہ 144 نافذ کرکے پوری پولیس اور سیکورٹی فورس کو حرکت میں لے آئے تو اس سے حکومت کی جانب سے اپنا اقتدار بچانے میں دلچسپی اور دہشت گردی اور انتہاپسندی روکنے سے معذوری یا بالواسطہ طورپر اس سے چشم پوشی کاتصور ہی ابھر سکتاہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی اس دانستہ یانادانستہ پالیسی اورعمل پر نظر ثانی کرے اوردہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری پاک فوج کے اوپرڈال کر خود بری الذمہ ہونے کے بجائے نفرت اور افراتفری پھیلانے کے درپے عناصر کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ اب ان کے یہ حربے برداشت نہیں کیے جائیں گے اورایساکرنے والوں کو کسی امتیاز کے بغیر قانون کے کٹہرے میںکھڑاکرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
یہاں یہ امر بھی قابل غورہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی تیزی سے سماعت کرکے کم از کم ممکنہ وقت میں انصاف فراہم کرنے کی غرض سے بنائی گئی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی کارکردگی بھی بڑی حد تک مایوس کن رہی ہے ،غالباً اس کا ایک سبب انسداد دہشت گردی کے قانون میں موجود سقم ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کے وکلا مقدمات کو طول دے کر کمزور کرنے اور اس طرح اپنے موکلوں کو سزا سے بچالینے کے حربے اختیار کرتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے کیے جانے والے نیم دلانہ اقدامات اور اس کے مقابلے میں سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں میں برق رفتاری کے مظاہرے کی وجہ سے اب یہ خیال بھی زور پکڑتاجارہاہے کہ حکومت انسداد دہشت گردی کے قوانین کو بھی اپنے سیاسی فائدے اور مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کررہی ہے ، ڈاکٹر عاصم اور پیپلزپارٹی کے بعض دوسرے رہنماﺅں پر اس قانون کے اطلاق پر پیپلز پارٹی کے حلقے یہ الزام اب برملا لگاتے نظر آتے ہیں۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قانون میں اتنی لچک موجودہے کہ حکومت کے خلاف ہونے والے 99 فیصد احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کو اس قانون کے تحت دہشت گردی کے زمرے میں شامل کیاجاسکتاہے اور ارباب حکومت اس قانون کی اسی لچک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے آنکھ بند کرکے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کررہی ہے۔