نواز شریف ملکی نظام کی خامیوں سے شاکی
شیئر کریں
نواز شریف نے گزشتہ روز اپنی پارٹی کے رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے ملک کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے ملک کے موجودہ پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے، ان کا استدلال یہ تھا کہ ماضی میں بھی حکومتیں گرائی گئیں لیکن عوام نے ان طریقوں کو مسترد کردیا جب کہ وزیراعظم کو نکالنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا توملک کسی حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کا پہیہ رکنا نہیں چاہیے، فیصلے پر اختلاف کرنا میرا حق ہے، ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑ کر جیلوں میں بھیج کر ملک نہیں چلائے جا سکتے، انھوںنے کہا کہ ہماری ملکی تاریخ قابل افسوس ہے مگرہمارے ملک کا حال افسوسناک نہیں ہونا چاہیے، پاکستان میں آئین اورقانون کی پاسداری ہونی چاہیے،انھوں دعویٰ کیاکہ موجودہ نظام کی مکمل ناکامی کے متعلق پاکستان کی اکثریت مکمل طور پر قائل ہوچکی ہے اور اس نظام میں رہ کر ملک کے غریب عوام کو حقوق‘ انصاف اور سہولت کی فراہمی تقریباً ناممکن تصور کی جارہی ہے۔ نظام کی تبدیلی کی بات تحریک استقلال نے اپنے 1979 کے منشور میں کی تھی لیکن اس وقت اکثر سیاسی جماعتوں نے اسے مسترد کردیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہی جماعتیں اس بات کی مکمل طور پر قائل ہوچکی ہیں کہ نظام کی تبدیلی کے علاوہ پاکستان ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا اور عوام کا معیار زندگی بلند نہیں کیا جاسکتا۔
نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد اس پورے نظام ہی کوناکارہ قرار دے دیا ہے جس کے تحت وہ چار سال سے زیادہ عرصہ اور اس سے قبل بھی دومرتبہ وزارت عظمیٰ کے مزے لوٹتے رہے تھے اور اپنے دور حکومت میں نہ صرف یہ کہ انھوںنے کبھی بھی نظام میں کسی خامی کی جانب کبھی اشارہ تک نہیں کیا بلکہ پاناما لیکس کے بعد اپوزیشن کے پرزور مطالبے کے باوجود آخری وقت تک کرسی سے چمٹے رہے تھے، جہاں تک ملک کے نظام میں خامیوں کامعاملہ ہے تو نواز شریف کے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے نظام میں خامیاں موجود ہیں اور ان ہی خامیوں کی وجہ سے نواز شریف اور ان کے رفقا کے علاوہ سینکڑوں افراد کو اس ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک محلات خریدنے اور بڑے بڑے کاروبار شروع کرنے کاموقع ملا ۔ اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد اس نظام کی ان ہی خامیوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور غالبا ً یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود کبھی اسی نظام کی تبدیلی کی بات زبان پر نہیں آنے دی ۔
اس حوالے سے اب بھی نواز شریف کی پارٹی اور ان کے رفقا کے پاس وقت ہے۔ اسمبلی میںان کی پارٹی کواکثریت حاصل ہے جس کی بنیاد پر وہ نواز شریف کی جگہ متبادل وزیر اعظم بنانے جارہی ہے، اپنی اس اکثریت کافائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ ن کو فوری طورپر اس نظام کی خامیاں دور کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہئے اور نئے قانون کے تحت موجود انتخابی طریقہ کار ترک کرکے متناسب نمائندگی کا نظام رائج کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ متناسب نمائندگی کے اس نظام کے تحت چونکہ کسی امیدوار کو براہ راست ووٹ نہیں دیاجاتا بلکہ پارٹی کے انتخابی نشان کو ووٹ ملتا ہے جس سے سیاست میں سے دولت کا عنصر مکمل طور پر ختم ہوسکتا ہے۔ متناسب نمائندگی کے نظام میں کوئی بھی ووٹ ضائع نہیں ہوتا اور جس پارٹی کو ملک بھر سے جس شرح سے ووٹ ملتے ہیں‘ اسی شرح سے اسے قومی اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں اور مقامی سطح پر ہر حلقے میں چند خاندانوں کی ازلی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونیوالے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ایسے دیرینہ نظریاتی کارکنوں کو اسمبلیوں میں بھیجنے کاموقع ملتا ہے جن کا دامن صاف ہو اس سے سیاست سے مخصوص خاندانوں اور برادریوں کی چھاپ ختم ہوجاتی ہے اور سیاسی پارٹیوں کو محض اسمبلی میں اپنی اکثریت قائم کرنے کے لیے بلیک میل نہیں ہونا پڑتا لیکن کیا مسلم لیگ ن اس پر تیار ہوگی ؟ کیا مسلم لیگ ن کے گدھ کسی نووارد کو آگے لانے پر تیار ہوسکتے ہیں، کیاشریف خاندان یہ پسند کرے گا کہ اسمبلی کے تمام ارکان صادق اور امین ہوں؟ کیا مسلم لیگ نون کے قائدین اسمبلی میں اپنے بھیجے گئے تمام ارکان کی کارکردگی کی ذمہ داری قبول کرنے اور ان کی غلط کاریوںپر عوام کو جوابدہ ہونے کو تیار ہوں گے؟ یہ ایسا سوال ہے کہ کم از کم مسلم لیگ ن کی جانب سے اس کے مثبت جواب کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اگر مسلم لیگ ن کے اربابِ اختیار نظام کی خامیوں کو دور کرنے میں دلچسپی رکھتے تو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ گزشتہ 4سال کے دوران وہ بڑی آسانی کے ساتھ ایسا کرسکتے تھے۔
جہاں تک ہمارے موجودہ سیاسی نظام کا تعلق ہے تو اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس وقت ملکی سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے اور تمام بڑی سیاسی جماعتوںکی سیاست ان خاندانوںکے مفادات کے تابع ہے،باپ کے بعد بیٹا بیٹی اور نانا کے بعد نواسی اور بھائیوں کے بعد ان کی اولادوں کو ہی قیادت مل سکتی ہے۔ جس کے باعث سیاست غریب تو کجا متوسط طبقے کی پہنچ سے دورہوچکی ہے۔جب تک سیاست میں نیا خون نہیں آئے گا اور خاندانی سیاست کاخاتمہ نہیں کیاجاتا، نہ تو اس ملک سے کرپشن کاخاتمہ ممکن ہوسکتاہے اور نہ ہی عام آدمی کو ان کے جائز حقوق کی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان مسلم لیگ اسمبلی میں اپنی عددی برتری کے باوجود ملک کے موجودہ انتخابی اور احتسابی نظام کی خامیاں دور کرنے پر توجہ نہیں دیتی تو یہ کام بھی سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو ہی انجام دینے پر توجہ دینی چاہئے،تاکہ اس ملک سے کرپشن کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہوسکے،سیاسی پارٹیوں کی جانب سے صرف الیکشن جیتنے اور اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے غنڈوں اور سماج دشمن عناصر کی پرورش کرنے اور کرپٹ لوگوں کی پشت پناہی کرنے کاموجودہ سلسلہ ختم ہوسکے اور عام آدمی کو یک گونہ سکون مل سکے۔