8 فروری کو ملک میں بڑا ڈاکا مارا گیا، عمران خان کا چیف جسٹس سے مکالمہ
شیئر کریں
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم بانی پی آئی نے کہا ہے کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشرکرنے کی درخواست مسترد کردی۔ جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے ، عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخت نہیں کرسکتی۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میں اپنی بات کرتا ہوں، میں میڈیا ،سوشل میڈیا دیکھتا اور اخبارات پڑھتا ہوں، وزیر اعظم نے کالی بھیڑیں کہا تھا۔اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ الفاظ موجود ججز کے لیے استعمال نہیں کئے گئے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے ، پھر وہی لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کیسے آئین سے متصادم تھیں وجوہات کیا بتائیں گئیں؟ قانون میں طے کردہ کرپشن کی حد سے کم کیسز دیگر عدالتی فورمز پر چلانے کا ذکر ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 5، 5 لاکھ روپے کے مقدمات بلوچستان ہائی کورٹ میں چلتے رہے ، پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے ، سپریم کورٹ تو صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے ۔اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے ؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ نیب ترامیم سے جرائم کی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے ۔جسٹس اطہرمن اللہ نے دریافت کیا کہ کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ کیا نیب سیکشن 9 اے 5 میں تبدیلی کر کے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ میاں نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت خیبرپختونخواہ اپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی؟ وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت ایسا کرسکتی ہے ۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے کی صوبائی حکومت اپنے طور پر قانون بنا سکتی ہے ، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں احتساب ایکٹ اس لئے ختم ہوا کہ وہاں نقصان ہورہا تھا، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وزرا پریس کانفرنسز کرکے نیب قانون کے خلاف بیانات دیتے رہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی تو آسان دلیل ہے کہ اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلہ کردیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کردے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے ، پارلیمنٹ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے ، اکثریتی فیصلے میں ایک کروڑ روپے کی کرپشن تک نیب کو کارروائی کا کہا گیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے ؟ اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے ، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میری رائے بالکل ایسی ہی ہے لیکن اٹارنی جنرل بہتر جواب دے سکتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب تحقیقات کی بات کی، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے ؟ ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں؟ کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے ۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سروس آف پاکستان کی تعریف میں ججز نہیں آتے ، ججز آئینی عہدے ہیں۔نیب ترامیم کیس میں عمران خان اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان پہلا باضابطہ مکالمہ ہوا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کریں گے ؟ عمران خان نے جواب دیا کہ میں آدھا گھنٹہ دلائل دینا چاہتا ہوں، مجھے تیاری کے لیے مواد ملتا ہے نہ ہی وکلا سے ملاقات کرنے دی جاتی ہے ، میں قید تنہائی میں ہوں۔عمران خان نے کہا کہ فروری کو ملک میں سب سے بڑا ڈاکا ڈاکا گیا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بات اس وقت نہ کریں، ہم ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری دو درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں وہ اپ کے پاس موجو د ہیں، چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کیا کہ اس میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ عمران خان نے بتایا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان ایک سینئر وکیل ہیں انہوں نے ملک سے باہر جانا تھا تو ان کو ان کی مرضی کی ایک مقدمے میں تاریخ دی ہے ۔بعد ازاں عمران خان نے بتایا کہ چیف جسٹس صاحب جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے جس کو ایک کرنل صاحب چلاتے ہیں، آپ ان کو آرڈر کریں کہ مجھے قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے دیں، وہ مجھے قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے نہیں دیتے ، مجھے یہاں قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے ، میرے پاس مقدمے کی تیاری کا کوئی مواد نہیں اور نہ ہی لائبریری ہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو مواد بھی فراہم کیا جائے گا اور وکلا سے ملاقات بھی ہوگی، اگر آپ قانونی ٹیم کی خدمات لیں گے تو پھر آپ کو نہیں سنا جائے گا۔اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ کسی قانونی شخص سے معاونت تو ضروری ہے تیاری کے لیے ، خواجہ حارث اور ایک دو اور وکلا سے ملنا چاہتا ہوں، یہ ملک کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ، اڈیالہ میں سب کچھ کرنل صاحب کنٹرول کرتے ہیں، پہلے بھی وکلا سے ملنا چاہتا تھا لیکن ممکن نہیں ہوا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان سے خواجہ حارث جب ملنا چاہیں مل سکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کیا جائے ، 50 لوگ ساتھ لے کر نہ جائیں ایک دو وکیل جب چاہیں عمران خان سے مل سکتے ہیں۔اسی کے ساتھ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوئے ، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کے لیے 3 گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل صاحب، وزیراعظم کو جا کر بتا دیجیے گا کہ سپریم کورٹ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ وزیراعظم سے کہیں اگر سپریم کورٹ میں کوئی کالی بھیڑیں ہیں تو پھر آپ ان کے خلاف ریفرنس دائر کریں۔بعد ازاں عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاریخ کا اعلان شیڈول دیکھ کر کریں گے ۔