میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اضافی اخراجات کی منظوری کے لیے وزیر خزانہ کی بھاگ دوڑ

اضافی اخراجات کی منظوری کے لیے وزیر خزانہ کی بھاگ دوڑ

ویب ڈیسک
بدھ, ۳۱ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

بجٹ پیش کرتے ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار گزشتہ سال کے اضافی اخراجات منظور کرانے کے لیے متحرک ہوگئے ہیں، وزارت اطلاعات سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق اخراجات پر کنٹرول کے حکومتی دعووں کے باجود وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار پارلیمنٹ سے اضافی اخراجات کے لیے 310 ارب 50 کروڑ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ منظور کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی بجٹ دستاویزات کے مطابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے سپلیمنٹری گرانٹ کے ذریعے 310 ارب 50 کروڑ کے حصول کی کوشش کی ہے جن میں سے کچھ تکنیکی نوعیت کے ہیں تاہم اس گرانٹ میں 121 ارب روپے کے اضافی اخراجات بجٹ پر اضافی بوجھ ہوگا۔پارلیمنٹ کو ان ا خراجات کی منظوری دینا ضروری ہے کیونکہ یہ رقوم پہلے ہی خرچ کی جا چکی ہیں۔قومی اسمبلی میں پیش کی گئی بجٹ دستاویزات پر سرسری نگاہ ڈالی جائے توظاہرہوتاہے وزیرخزانہ جن اضافی اخراجات کی منظوری حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہیں ان میں وزیراعظم کے اختیاری اخراجات، ان کی تشہیر، نئی لگژری گاڑیوں کی خریداری، ججز کو دی جانے والی مراعات ، تزئین و آرائش اور خفیہ ایجنسیوں کے نامعلوم اخراجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔دستاویزات کے مطابق اگلے مالی سال کے لیے دی جانے والی 310 ارب 50 کروڑ کی سپلیمنٹری گرانٹ گزشتہ برس 261 ارب روپے کی گرانٹ کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔دستاویزات کے مطابق 185 ارب روپے کی گرانٹ منظور شدہ اخراجات کے لیے ہے اوروزیر خزانہ کا مو¿قف یہ ہے کہ کیونکہ فنڈز کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی سے بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ یہ ریگولر سپلیمنٹری گرانٹ اُن اخراجات کے لیے فراہم کی گئی ہے، جو اُس وقت سامنے نہیں آئے تھے جب ان گرانٹ کے مطالبات کو حتمی شکل دی جارہی تھی اور یہ اضافی گرانٹ بجٹ پر اثر انداز ہوگی۔حیران کن طور پر وزارت خزانہ محض 11 ماہ قبل ہونے والے ان اخراجات کے بارے میں نہیں جان سکی۔چونکہ ان گرانٹس کی اخراجات کے طور پر وضاحت کی گئی ہے لہٰذا پارلیمنٹ اسے مسترد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ رقم پہلے ہی خرچ ہو چکی ہے۔مثال کے طور پر سبسڈی میں کمی کے دعووں کے باوجود حکومت سبسڈی کے لیے مختص رقم کو پہلے ہی 12 ارب روپے بڑھا چکی ہے جسے بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔دوسری جانب غیر منظور شدہ بیرونی قرضوں کی مد میں 63 ارب روپے خرچ کیے گئے جبکہ 41 ارب روپے ’دیگر‘ اخراجات پر خرچ ہوئے۔سپلیمنٹری گرانٹ کے مزید 61 ارب روپے پر نظر ڈالی جائے تو یہ رقم کفایت شعار پالیسی ہونے کے باوجود غیر ضروری اسراف میں ہی شمار ہوگی ۔مثال کے طور پر خصوصی حفاظتی سامان کی خریداری پر ایک ارب 60 کروڑ خرچ ہوئے جن میں 14 کروڑ روپے صدر پاکستان کی سیکورٹی پر خرچ ہوئے جبکہ 15 کروڑ 40 لاکھ روپے وزیراعظم کے اختیاری اخراجات اور دوران ملازمت انتقال کرجانے والے ملازمین کے خاندان کی مالی معاونت اور اعزازی ادائیگیوں پر خرچ ہوئے۔35 اعلیٰ سیکورٹی گاڑیوں کی خریداری کی مد میں 45 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ ہوئے، اسلام آباد میں منعقد ہونے والی انیسویں سارک کانفرنس کے اخراجات پر 9 کروڑ 70 لاکھ روپے جبکہ افغانستان میں تشہیری مہم، عالمی ادارہ صحت اور انسانی حقوق کونسل پر 11 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔وزیر اعظم صحت اسکیم کی تشہیر پر قومی خزانے میں سے ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ مختلف کھیلوں کی فیڈریشن میں 52 کروڑ 50 لاکھ روپے تقسیم ہوئے۔ججوں کی رہائش گاہوں، ریسٹ ہاو¿سز، آفس اور خصوصی عدالت کی عمارت کی تزئین و آرائش پر اضافی 19 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔تقریباً 3 ارب روپے کیوبا، چین اور سری لنکا کو چاول تحفتاً دینے کے لیے پاکستان ٹریڈنگ کارپوریشن کو دیے گئے۔غیر منظور شدہ 12 ارب 30 کروڑ روپے میں سے 9 ارب روپے جے ایف 17 تھنڈر کی ادائیگیوں پر، گندم اور آٹے کی درآمدات پر سبسڈی کے لیے ایک ارب 60 کروڑ خرچ ہوئے جبکہ ایک ارب 60 کروڑ روپے چینی کی درآمدات کے لیے شوگر ملز مالکان کو دیے گئے۔حکومت نے ایشیائی ترقیاتی و سرمایہ کاری بینک میں شراکت کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے، آرگنائزیشن برائے اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کو ایک ارب 13 کروڑ روپے جبکہ عالمی ادارہ صحت کو 5 ارب 30 کروڑ روپے ادا کیے۔تقریباً 31 ارب روپے کی رقم مالی سال کے دوران مختص کی گئی، جن میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کی حفاظت کے لیے 10 ارب روپے، اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے فوج کو 11 ارب روپے جبکہ اندرونی سیکورٹی ڈیوٹی الاو¿نس کی مد میں 5 ارب روپے رکھے گئے۔ افغانستان اور ایران سے ملحقہ مغربی سرحد پر مسلح افواج کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے 19 ارب روپے خرچ کیے گئے جبکہ سندھ اور پنجاب میں پاکستان رینجرز کی صلاحیت بڑھانے کے لیے 2 ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ پاکستان میں مردم شماری کے لیے 18 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے جبکہ وزیراعظم پیکج کے تحت کھاد کی برآمدات پر 25 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔عالمی ثالثی عدالت میں بھارت کے خلاف کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے کیس کی پیروی کے لیے الین اینڈ اوروے نامی فرم کو بالترتیب 37 کروڑ 80 لاکھ اور 40 کروڑ 8 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔ارکان پارلیمنٹ کو وزیر اعظم ترقیاتی اسکیم کے تحت 22 ارب 50 کروڑ روپے ادا کیے گئے جبکہ 1 ارب روپے وزیراعظم تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے خرچ کیے گئے جن میں اسلام آباد میں موجود تقریباً 200 تعلیمی اداروں کی تزئین و آرائش شامل ہے۔وزیر اعظم یوتھ اسکل ڈیولپمنٹ اسکیم پر 2 ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے، وزیراعظم بلا سود قرضوں اور یوتھ بزنس
قرضوں پر 43 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ وزیراعظم یوتھ ٹریننگ اور وزیراعظم خصوصی اسکیم برائے مظفر گڑھ پر 3 ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔وزیرستان میں موجود تصدیق شدہ بے گھر افراد کو 6 ارب 60 کروڑ روپے کی مالی امداد دی گئی۔نیشنل کمیشن برائے انسانی ترقی کو 62 کروڑ روپے بطور الاو¿نس ادا کیے گئے جبکہ 2 ارب 10 کروڑ روپے ہنگامی صورتحال پر استعمال ہونے والے تین ہیلی کاپٹروں کے انجن پر خرچ ہوئے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے جانے والے اخراجات کی اس فہرست سے ظاہرہوتاہے کہ یہ تمام اخراجات غیر ضروری تھے یعنی اگر وزارت خزانہ چاہتی تو ان اخراجات کی منظوری دینے سے انکار کرسکتی تھی اور اس طرح پر تعیش گاڑیوں کی خریداری ، رہائش گاہوں اور دفاتر کی تزئین وآرائش پر خرچ کیے گئے اربوں روپے بچاکر عوامی بہبود کے کسی منصوبے پر لگائی جاسکتی تھی اس رقم سے اس ملک کے ہزاروں افراد کو علاج معالجے کی بہتر سہولتیں فراہم کی جاسکتی تھیں ، ہزاروں افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا کیاجاسکتاتھا لیکن غالباً وزارت خزانہ کے نزدیک اس ملک کے غریب عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے مقابلے میں صدر ، وزیر اعظم دیگر وزرا اور جج حضرات کی کاسہ لیسی زیادہ اہمیت رکھتی تھی بہر طور یہ رقم خرچ کی جاچکی ہے اور حکومت ایوان میں اپنی اکثریت کے بل پر اس کی منظوری بھی حاصل کرلے گی،اور حکمرانوں کی اس عیاشی کا یہ بوجھ بھی اس ملک کے غریب عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
ارکان پارلیمنٹ کافرض ہے کہ وہ اس طرح کے اخراجات کی منظوری دینے سے قبل وزارت خزانہ سے ان اخراجات کا جواز پیش کرنے کو کہیں تاکہ عوام کو یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کون سی مجبوریاں تھیں جس کی وجہ سے وزیر اعظم ، صدر اور معزز جج صاحبان اور دیگر صاحب ثروت افراد کو ایسی مزید سہولتیں اور مراعات فراہم کرنا اتنا ضروری تھا کہ بجٹ میں اس طرح کے اخراجات کی کوئی گنجائش نہ ہونے کے باوجود ان کی فراہمی کو ضروری تصور کیاگیا ۔امید کی جاتی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں