بیروزگاروں کے ساتھ حکومت سندھ کامذاق
شیئر کریں
مختلف اسامیوں کے لیے طلب کردہ ہزاروںدرخواستیں کچرے میں پھینک دی گئیں
وزیراعلی سندھ نے بھرتیوں پرپابندی اٹھانے کااعلان کیا ‘ایک سال گزرنے کے باوجودکسی درخواست دینے والے کوانٹرویوپرنہیں بلایاگیا
کسی محکمے نے نہ توبیروزگارنوجوانوں کی موصولہ درخواستوں کا ریکارڈتیارکیانہ اعلیٰ افسران نے انھیں کھول کردیکھنے کی زحمت گوارا کی
بیروزگارو ں کی بھیجی گئی ہزاروں درخواستیں تغلق ہائوس کے سامنے بکھری نظر آنے لگیں‘ کچرا چننے والے بوریا ںبھر بھرکر لے جارہے ہیں
ایچ اے نقوی
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ سال سرکاری دفاتر میں بھرتیوں پر عاید پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیاتھا جس کے بعد اس صوبے کے لاکھوں تعلیم یافتہ بیروزگاروں کو امیدتھی کہ اب ان میں سے چند ہزار کو باعزت سرکاری ملازمت مل جائے گی،وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے بھرتیوں پر پابندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد مختلف سرکاری محکموں کی جانب سے گزشتہ سال اکتوبر نومبر میں خالی اسامیوں پر بھرتی کے لیے اخبارات میں اشتہارات کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں جس کے جواب میں اطلاعات کے مطابق ہر محکمہ کوہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی تھیں ،سرکاری اداروں کی جانب سے ملازمتوں کی درخواستوں کی یہ طلبی اس صوبے کے بیروزگاروں کے ساتھ ایک مذاق ثابت ہوا کیونکہ ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی ملازمتوں کی درخواست دینے والوں کو نہ تو کسی انٹرویو کے لیے طلب کیاگیا اور نہ ہی ان کی درخواستوں پر ابھی تک کوئی کارروائی نہ کیے جانے کاکوئی سبب بتایاگیا، اس طرح مختلف محکموں میں ملازمتوں کی امید پر درخواست دینے والے بیروزگار نوجوان اور ان کے اہل خانہ گزشتہ ایک سال سے امیدوبیم کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں،جبکہ حکومت سندھ کے اندرونی حلقوں کاکہناہے کہ سرکاری ملازمتوں میں اسامیاں خالی ہونے کے باوجود ان پر بھرتیوں کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کا بڑا سبب حکومت کے اندر موجود وہ بااثر طبقہ ہے جو یہ ملازمتیں میرٹ پر اترنے والے نوجوانوں کو کسی امتیاز کے بغیر دینے کے بجائے اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے من پسند لوگوں میں تقسیم کرکے سیاسی فوائد اور مبینہ طورپر لاکھوں روپے رشوت حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن قومی احتساب بیورو کے اچانک فعال ہوجانے کی وجہ سے گرفت میں آنے کے خوف سے وہ فی الوقت ایسا کرنے سے گریز کررہے ہیں اور مناسب وقت کاانتظار کررہے ہیں اور ان کی اس خواہش اورانتظار کی وجہ سے لاکھوں بیروزگار انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ سال سرکاری دفاتر میں بھرتیوں پر عاید پابندیاں اٹھانے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی مختلف سرکاری محکموں میں خالی اسامیوں کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں جس کے جواب میں انھیںسروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مختلف محکموں میں خالی اسامیوں کی جو فہرست پیش کی گئی اس کے مطابق سندھ ریونیو بورڈ میں فی الوقت ایک ہزار 16 اسامیاں خالی ہیں، محکمہ تعلیم میں26ہزار789 ،محکمہ زراعت میں ایک ہزار 275، محکمہ ایکسائز میں 215،انکوائریز اوراینٹی کرپشن میں341 ،انرجی میں 415 ،محکمہ خوراک میں448 ،محکمہ جنگلات اورجنگلی حیات میں213 ،محکمہ صحت میں6 ہزار 337 ،محکمہ آبپاشی میں ایک ہزار 656 اورمحکمہ محنت میںایک ہزار 975 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے سرکاری محکموں میں بھرتیوں پر پابندی ختم کرنے کے اعلان کے فوری بعد محکمہ تعلیم کے سوا دیگر تمام اداروں کے سربراہوںنے اپنے اپنے محکموں کی خالی اسامیاں پر کرنے کے لیے بھرتی کے لیے کارروائیاں شروع کردی تھیں اور اس مقصد کے لیے صوبے کے چھوٹے بڑے قومی اور علاقائی اخبارات میں گزشتہ سال اکتوبر نومبراور رواں سال فروری کے مہینے کے دوران میں خالی اسامیوںپربھرتی کے لیے باقاعدہ اشتہارات بھی شائع کرادئے گئے تھے جس کے جواب میں ان محکموں کو اطلاعات کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوچکی ہیںلیکن محکمہ پولیس کے سوا جس کے سربراہ آئی جی سندھ نے پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومت میں شامل بااثر ارکان اسمبلی اور سیاسی رہنمائوں کا اثر اور دبائو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے پولیس میں بھرتیوں کے لیے ضابطے کی کارروائیاں شروع کردی ہیں ،سندھ کے کسی بھی محکمہ میں نئی بھرتیوں کے لیے کوئی پیش رفت اب تک دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔جبکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے رواں مالی سال کابجٹ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیاتھا کہ حکومت سندھ رواں مالی سال کے دوران کم از کم 50 ہزار بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے گی،لیکن یہ 50 ہزار ملازمتیں کب فراہم کی جائیں گی اور ان خالی اسامیوں پر تعینات کیے جانے والے وہ خوش نصیب نوجوان کون ہوں گے ابھی تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔
لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ سال مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات دیکھ کر میں نے سندھ کے7 مختلف محکموں میں ملازمت کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں، ان درخواستوں کے لیے مختلف اسناد کی کاپیاں اور درخواستیں تیار کرنے اور کوریئر کے خرچ میرے کئی ہزار روپے خرچ ہوگئے لیکن اب تک ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی مجھے کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور مجھے نہیں معلوم کہ میری درخواست کاکیا حشر کیاگیا؟۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی تعلیم اورقابلیت سے مطابقت رکھنے والے مختلف عہدوں کے لیے محکمہ صنعت، ریونیو بورڈ، محکمہ خوراک، لائیو اسٹاک اورکئی دوسرے محکموں میں درخواستیں دے رکھی ہیں اور ان پر بھرتی کے لیے کسی طرح کے ٹیسٹ یا انٹرویو کے لیے بلائے جانے کی منتظر ہوں۔اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہواہے کہ صوبے کے بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی جانب سے سیکڑوں روپے خرچ کرکے بھیجی گئی ان درخواستوں پر نہ صرف یہ کہ اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی گئی بلکہ بعض محکموں نے جن میںایکسائز وٹیکسیشن اورمحکمہ آبپاشی شامل ہیں ان درخواستوں کے انبار سے جان چھڑانے کی کارروائی شروع کردی ہے اور یہ درخواستیں بغیر پڑھے اور کسی کارروائی کے بغیرہی کچرے کی نذر کی جارہی ہیں،اور اس طرح کی ہزاروں درخواستیں تغلق ہائوس کے سامنے بکھری نظر آنے لگی ہیں،جبکہ ہزاروں درخواستیں بوری میں بند کرکے تغلق ہائوس کے باہر پھینک دی گئی ہیں جو کچرا چننے والے اٹھاکر لے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے جب محکمہ ایکسائز اور ٹیکسیشن کے سیکریٹری عبدالحلیم شیخ سے صحافیوں نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے دوتین مرتبہ رابطہ کرنے کے باوجود ان درخواستوں کے اس طرح پھینکے جانے کے حوالے سے کچھ بتانے سے انکار کردیا تاہم ان کے دفتر کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ انھیں افسران کی جانب سے یہ درخواستیں پھینک دینے کی ہدایت کی گئی تھی کیونکہ اب محکمے کو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جبکہ دوسرے سرکاری محکمے صحافیوں کویہ بتانے سے بھی گریزاں ہیں کہ ان کے محکموں میں کتنی خالی اسامیوں کے لیے کتنی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اس کا ایک بڑا سبب یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی بھی محکمے کے افسران سے موصول ہونے والی درخواستوںکاکوئی ریکارڈ تیار نہیں کیاہے اور اب تک کسی نے ان درخواستوںکو کھول کر دیکھنے اور ان میں سے متوقع اہل امیدواروں کی درخواستیں علیحدہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے،بیروزگار نوجوانوں کی درخواستوں کو اس طرح پھینکے جانے سے ان خدشات کوتقویت ملتی ہے کہ مختلف محکموں میں بھرتی کے لیے اخبارات میں اشتہارات محض ضابطے کی کارروائی پوری کرنے اور خانہ پری کے لیے شائع کرائے گئے تھے اور تمام خالی اسامیوں پر حکومت اور پارٹی کے بااثر افراد کے من پسند افراد کو ملازمت فراہم کرکے سیاسی فوائد حاصل کرنے اور پارٹی کومضبوط ومنظم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
سندھ کے دیگر محکموں کے برعکس حال ہی میں اخبارات میں اسپیشل سیکورٹی یونٹ میں بھرتیوں کے لیے اشتہارات شائع کیے گئے تھے جس کے جواب میں سندھ پولیس کو لاکھوں کی تعداد میںدرخواستیں موصول ہوئی ہیں ،سندھ اسپیشل سیکورٹی یونٹ کے ارباب اختیار کا کہناہے کہ انھیں اب تک ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوچکی ہیںجبکہ اس یونٹ میں صرف ایک ہزار 300 افراد بھرتی کیے جائیں گے اس سے ظاہرہوتاہے کہ اس محکمہ میں ملازمتوں کے حصول کے خواہاں نوجوانوں کو سخت امتحان اور مقابلے سے گزرناہوگا۔
ایک طرف وزیر اعلیٰ سندھ صوبے کے کم از کم 50 ہزار بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کررہے ہیں دوسری طرف اطلاعات کے مطابق سندھ کے فنانس ڈیپارٹمنٹ وزیراعلیٰ سندھ کو مشورہ دیاہے کہ کسی بھی محکمے میں نئی بھرتیوں سے گریز کیاجائے کیونکہ سندھ کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں اور خزانہ نئے لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ کو محکمہ مالیات سیکریٹری سید حسن نقوی نے ایک سمری کی شکل میں ارسال کی ہے جو وزیر اعلیٰ کوموصول ہوگئی ہے۔
صورت حال کچھ بھی سندھ کے مختلف محکموں میں خالی اسامیوں پر بھرتی کے لیے اخبارات میں اشتہارات شائع کرانے کے بعد درخواست دہندگان کے ساتھ متعلقہ افسران کا یہ سلوک اور یہ بے اعتناعی اور ان کی درخواستوں کو اس طرح کچرے کی نذر کیے جانے سے سندھ کے نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور اس کی وجہ سے حکومت کے خلاف غم وغصہ بھی بڑھتاجارہاہے جو کسی بھی وقت لاوے کی شکل میں ابل سکتاہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو اس صورت حال کانوٹس لینا چاہئے اور بیروزگاروں کی جانب سے ملازمتوں کے لیے دی گئی درخواستوں کواس طرح کچرے کی نذر کر کے ہزاروں نوجوانوں کو مایوس کرنے اور ان کے دلوں میں حکومت مخالف جذبات پیدا کرنے کاباعث بننے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو صوبے کے مجبور نوجوانوں کے ساتھ اس طرح کے کھلواڑ کی جرات نہ ہو۔