جی ڈی اے کی سیاسی سرگرمیاں شروع ‘پیپلزپارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی
شیئر کریں
سکھرمیں کامیاب جلسے سے عوام کی بھرپورتوجہ حاصل کرنے والی جی ڈی اے کوسیاسی ماہرین پی پی پی کااچھامدمقابل گردان رہے ہیں
آصف علی زرداری کی پالیسیوں سے نالاں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کی بڑی تعدادبھی جی ڈی اے میں شمولیت کے لیے پرتول رہی ہے
آنے والے دنوں میںپیپلزپارٹی چھوڑکرجی ڈی اے میں شامل ہونے والے خودپیپلزپارٹی کے لیے خطرہ بن کراسے ٹف ٹائم دے سکتے ہیں
الیاس احمد
ملک کی سیاست میں ایک ہل چل مچی ہوئی ہوئی ہے ہرآنے والادن نت نئی کہانیاں لے کرآرہاہے ۔ کہا جارہاہے کہ الطاف حسین، نوازشریف کے بعد اب کیا آصف علی زرداری کو ملکی سیاست سے آؤٹ کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ آصف علی زرداری نے جس قسم کی سیاست کی روایت ڈالی ہے اس پرانھیں داد دینی چاہئے۔مفاہمت کے نام پر انہوں نے سندھ کو مکمل طور پر تباہ برباد کرکے رکھ دیا ہے اور ظاہریہ کررہے ہیں کہ ان کے بغیر سندھ تو کیا پورا ملک نہیں چل سکتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے کبھی بھی آصف علی زرداری کو صف اول میں آنے نہ دیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کے شوہرنامدارپارٹی کو جو نقصان پہنچائیں گے اس کا جواب وہ خود نہیں دے پائیں گے بلکہ الٹا مجھے (محترمہ بینظیر بھٹو کو) ہی دینا پڑے گا اس لیے محترمہ نے ہمیشہ ان کو پارٹی رہنمائوں کی تیسری چوتھی صف میں رکھا مگر اب چونکہ محترمہ بے نظیر اس دنیا میں نہیں رہی ہیں اس لیے اب پوری پارٹی کے مالک ہی آصف علی زرداری بن بیٹھے ہیں۔
آصف علی زرداری پچھلے دس برسوں میں ایک مرتبہ بھی عوامی مقامات پر نہیں گئے لیڈر تو ایسا ہوتا ہے کہ اچانک کسی بازار، کسی تفریحی مقام، کسی ہوٹل، کسی پارک، کسی شہر، کسی گاؤں میں شادی، غمی میں چلاجاتا ہے۔ لیکن یہ شرف آصف علی زرداری کو حاصل نہیں ہوا وہ تو عوامی جلسوں میں جب خطاب کرتے ہیں تو ایک بلٹ پروف شیشے میں خود کو کھڑا کرلیتے ہیں اگر وہ کبھی نوابشاہ اپنے گھر جاتے ہیں تو اپنے گھر کے اطراف میں ہائی لیول سیکورٹی کا انتظام کرتے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ ان کو کس سے خطرہ ہے؟ وہ خود بادشاہ بنے ہوئے ہیں سندھ میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں، کسی کی کیا مجال کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے، لیکن انھیں اندر سے کوئی ایسا خوف ضرور ہے جو ان کو بغیر پروٹوکول کے عوام کے پاس جانے سے روکتا ہے۔ وہ کم از کم 30 گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ چلتے ہیں جس میں 5 گاڑیاں بلٹ پروف ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عید پر یا کسی شادی، غمی کی تقریب پر، محترمہ بینظیر بھٹو اور ذوالفقار بھٹو کی برسی پر عوام میں گھل مل نہیں جاتے وہ ہمیشہ ڈرائنگ روم کی سیاست کو پسند کرتے ہیں۔
بلاول ہائوس کراچی، بلاول ہاؤس لاہور، بلاول ہاؤس اسلام آباد یا پھر زرداری ہاؤس دبئی میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں، ان کو اس طرح عوام میں جانا اچھا نہیں لگتا اور اب ایسا ہی لگتا ہے کہ آصف علی زرداری نے پارلیمانی سیاست کے گر سیکھ لیے ہیں وہ الیکشن میں کامیابی کے طریقے اچھی طرح جانتے ہیں وہ الیکشن میں پولیس اور انتظامی افسران کو استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سے بھی ’’ڈیل‘‘ کرنے کا بھی فن جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ان کو عام الیکشن میں کوئی فکر نہیں ہے مگر اپوزیشن نے ابھی سے عام الیکشن کی تیاری شروع کردی ہے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اپنی انتخابی مہم کا سکھر کے جلسہ عام سے آغازکردیاہے، الیکشن کی تیاری کے لیے جی ڈی اے نے تمام سیاسی گروپوں کے ساتھ مل کر اپنی حکمت عملی بنانا شروع کی ہے۔
پیپلزپارٹی کو اصل مشکلات شاید جی ڈی اے سے اتنی نہ ہو مگر اندرونی طور پر پارٹی کے ناراض رہنماؤں سے زیادہ پریشانی ہے۔ پیپلزپارٹی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے اس وقت ہر ضلع کے 10 سے زائد رہنما ناراض ہوکر بیٹھے ہیں صرف عام الیکشن کے انعقادکا اعلان ہونا ہے، ایک بڑی کھیپ پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر جی ڈی اے میں آنے کے لیے بے تاب ہے اور وہی گروپ پیپلزپارٹی کے لیے خطرہ پیدا کرسکتا ہے ، پیپلزپارٹی نے دو، تین سال قبل ایسی پالیسی بنائی تھی کہ پورے سندھ سے تما م سیاسی خاندانوں کو پیپلزپارٹی میں شامل کیا اور یہ نہ دیکھا کہ جب تمام سیاسی رہنما پی پی پی میں آجائیں تو پھر عام الیکشن میں سب کو کس طرح راضی کیا جائے گا؟ اس سوال پر اس وقت تو غور نہیں کیا گیا لیکن اب یہ بات پی پی پی کی قیادت کو شدت سے احساس دلاتی رہی ہے کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو بیک وقت راضی رکھنا کتنا مشکل امر ہے؟اس لیے ابھی سے یہ طے کیا جارہا ہے کہ کس کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے تو وہ کامیاب ہوگا اور کس کو ٹکٹ نہ دے کر ناراض کیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق سابق صدر نے ایک سروے شروع کرایا ہے جو سندھ بھر کے ہر حلقے کا سروے کرکے انہیں رپورٹ دے گا کہ کس کو ٹکٹ دینا سود مند اور کس کو ٹکٹ دینا نقصان دہ ہوگا۔ اس لیے احتیاط کے ساتھ پتے کھیلے جارہے ہیں اور جیتنے والے امیدواروں کی تلاش شروع کردی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ ارباب غلام رحیم، غلام مرتضیٰ جتوئی جیسے افراد کو بھی پی پی پی میں لانے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ اب پیرپگارا، ارباب غلام رحیم، سید غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، اعجاز شاہ شیرازی، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ایاز لطیف پلیجو، سردار رحیم، سید جلال محمود شاہ جیسے سینئر سیاستدانوں نے مل بیٹھ کر الیکشن کے لیے متفقہ حکمت عملی تیار کرنا شروع کردی اور اس کی ابتدا سکھر کے جلسہ عام سے کربھی دی گئی۔جلسہ عام میں بڑی تعدادمیں عوا م کی شرکت نے پیپلزپارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ضروربجادی ہے۔ جی ڈی اے اس جلسے کے بعددیگرڈویژنل ہیڈکوارٹرزمیں بھی جلسے کرنے کاارادہ رکھتی ہے ۔ کہایہ جارہاہے کہ جی ڈی اے کی اصل طاقت پی پی پی کے ناراض رہنما بنیں گے جس کے لیے جی ڈی اے نے بھی اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہیں تاکہ ناراض رہنماؤں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا جاسکے۔