میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اقتصادی بالادستی کے لیے امریکا-چین محاذآرائی تیز

اقتصادی بالادستی کے لیے امریکا-چین محاذآرائی تیز

منتظم
بدھ, ۳۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

چین نے امریکا و یورپی پالیسی سازوں کی فوجی و اقتصادی طاقت کا مقابلہ خاموشی کے ساتھ انفرااسٹرکچر پر توجہ دے کر کیا
اب امریکا بھی پوری دنیامیں انفرااسٹرکچر کی ترقی وبحالی اورتعمیر کیلئے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت کااظہار کرنے لگا
جمال احمد
چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور صنعتی ترقی اورعوامی جمہوری چین کی قیادت کی جانب سے دنیا بھر میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کیلئے کی جانے والی پیش رفت نے امریکا سمیت تما م بڑے صنعتی مغربی ممالک کو پریشانی میں مبتلا کردیا ،اوریہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ صدی کے آغاز سے ہی دنیا پر بالادستی کے حوالے سے عوامی جمہوریہ چین اور امریکا کے درمیان ایک خاموش جنگ شروع ہوچکی ہے،امریکا اب تک تیسری دنیا کے ترقی پزیر ممالک کو ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے قرضوں کی فراہمی کے ذریعے اپنی ہم نوائی اور اپنے ایجنڈے پر کام کرتے رہنے پر مجبور کرتارہاہے لیکن چین کی جانب سے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ذریعے غریب اور کم وسیلہ ممالک کو امداد کی فراہمی کے ساتھ ہی اب چین اور اس کے زیر اہتمام کام کرنے والی تنظیم برکس میں شامل برازیل، بھارت ،روس شامل ہیں ایک علیحدہ ترقیاتی بینک کے قیام سے ترقی پذیر ممالک کو اپنی شرائط پر قرض دینے کے حوالے سے قائم اجارہ داری ٹوٹتی نظر آرہی ہے ،اس حوالے سے یہ یاددلانا ضروری ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے قیام کے وقت ہی امریکا نے عالمی مالیاتی اداروں کو پیش آنے والے چیلنجوں اور قرضوں کے ذریعے دنیا کے غریب ممالک کی وفاداریاں خریدنے کی پالیسی کے کمزور پڑنے کا اندازہ لگالیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اپنے ہم نو ا یورپی اور دیگر مغربی ممالک کو ایشیائی ترقیاتی بینک سے کسی قسم کا رابطہ نہ رکھنے پر مجبور کرنے کیلئے مختلف حربے اختیار کرنا شروع کردئے تھے ،لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک اب ایک حقیقت ہے ۔اگرچہ اس کا دائرہ کار ابھی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی طرح وسیع نہیں ہے لیکن یہ بینک اپنے وسائل کے مطابق کم وسیلہ ممالک کی مدد کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے بعد برکس ممالک نے عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے اور کم وسیلہ ممالک کو ان کے چنگل سے نجات دلانے اور ان اداروں کے جارحانہ حربوں کے مقابلے کیلئے جو نیا ترقیاتی بینک قائم کیا ہے اس کے دروازے بھی تمام ضرورت مند ممالک کیلئے کھلے رکھے گئے ہیں یعنی تمام ضرورت مند ممالک اس میں شامل ہوسکتے ہیں ۔برکس کے ذریعے انھیں مستقل کنٹرول کے اختیارات دئے گئے ہیں۔اس بینک کے ساتھ ہی عالمی معیشت میں آنے والے اتار چڑھاﺅ کے دھچکوں سے اسے بچانے کیلئے ایک مستقل ریزرو انتظام بھی کیاگیا ہے اور اس ریزرو انتظام میں شامل ممالک سامراجی شرائط تسلیم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔اسکے علاوہ چین اور اس کے اتحادی ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر انتظام ایک ترقیاتی بینک بھی قائم کرچکے ہیں ، شنگھائی تعاون تنظیم یورپی اور ایشیائی ممالک کی ایک اقتصادی ، سیاسی اور فوجی تعاون کی تنظیم ہے جس میں چین اور روس کا کردار کلیدی ہے۔بھارت ، پاکستان اور ایران سمیت تمام ممالک اس کے رکن بن سکتے ہیں یعنی اس کے دروازے بھی تمام ممالک کیلئے کھلے رکھے گئے ہیں۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ غریب اور کم وسیلہ ممالک کو مالیاتی اداروں کے سامراجی شکنجے سے آزاد کرانے کی کوششیں جاری ہیں اور یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ جلد ہی اس کے انتہائی مثبت اور حیران کن نتائج سامنے آئیں گے۔
چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کودیکھتے ہوئے اب امریکا اور اس کے حواری مغربی ممالک نے دنیا پر اپنی اجارہ داری اور بالادستی قائم رکھنے اور اس میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے کیلئے اقتصادی میدان سے ہٹ کر فوجی شعبے میں قوت آزمائی کی پالیسی اختیار کرنا شروع کی ہے اور اپنی فوجی قوت اور بالادستی کے اظہار کیلئے اب امریکا اور اس کے حواری مغربی ممالک بلاوجہ دوسرے ملکوں کے اندرونی مسائل اور جھگڑوں کو عالمی تنازعات کارنگ دے کر فوجی مداخلت کے جواز پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، افغانستان کو طالبان سے نجات دلانے کے نام پر امریکا کی چڑھائی، عراق کو صدام حسین کے تسلط سے نجات دلانے کے نام پر اس ملک پر جارحانہ فوج کشی اور اس کے بعد اس کے تیل کے کنوﺅں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے عراق میں انتہاپسند تنظیموں کواس قدر اسلحہ کی فراہمی کہ اب یہ تنظیمیں خود امریکا اور مغربی ممالک کیلئے دردسر بن چکی ہےں،اور حال ہی میں شام میں جاری طویل خانہ جنگی کی کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں حکومت مخالف قوتوں کی امداد کے نام پر بے تحاشہ بمباری کے واقعات جس کے نتیجے میں لاتعداد بچے، خواتین اور جوان ہلاک ہوچکے ہیں یہاں تک کہ ہسپتال میں زیرعلاج زخمی اور ان کا علاج کرنے والے مسیحا بھی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اس کا کھلا ثبوت ہیں۔
امریکا کی جانب سے فوجی محاذ آرائی کے جواب میں چین اور روس نے اگرچہ اس طرح اپنی فوجی طاقت کامظاہرہ کرنا شروع نہیں کیا ہے لیکن حالیہ دنوں میں روس کی جانب سے شام میں صدر بشارالاسد کے مخالفین اور دہشت گرد تنظیموں کے قائم کردہ نیٹ ورک کے خلاف فضائی اور زمینی کارروائی نے امریکی حکومت اور خاص طورپر پینٹاگون کے پالیسی سازوں کو کچھ سوچنے پر مجبور کردیاہے دوسری جانب چین کی حکومت اور پالیسی ساز امریکا کی فوجی محاذ آرائی کے حربوں سے بے نیاز ہوکر اقتصادی میدان میں امریکا اور اس کے حواری مغربی ممالک کے پھیلائے ہوئے جال کو کاٹنے اور اس میں جکڑے ہوئے ممالک کو اس جال سے نکلنے میں مدد دینے کی پالیسی پر انتہائی خاموشی اور مکمل لگن کے ساتھ عمل پیر اہےں جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت جاپان، آسٹریلیا، جنوبی کوریااور فلپائن اگرچہ امریکا کے ساتھ فوجی تعاون کے معاہدوں میں شریک ہیں لیکن ان تمام ممالک کے تجارتی روابط چین سے قائم ہیں اور ان ملکوں کے ساتھ چین کا تجارتی حجم وقت کے ساتھ بڑھتاجارہاہے ۔
چین نے دنیا کے مختلف ممالک خاص طورپر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ ہی ان ملکوں کو خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اوراپنے عوام کی بنیادی ضروریات کے تکمیل کے ساتھ ہی عالمی مالیاتی اداروں سے کڑی شرائط پر حاصل کردہ قرض کی رقم اور اس پر منافع بآسانی ادا کرنے کے قابل بنانے کیلئے اب ان ملکوں کی زرعی،معدنی اور صنعتی پیداوار کو ان ممالک سے مناسب قیمت پران کی اشیا خریدنے کی حکمت عملی اختیار کی ہےجو اس سے پہلے اپنی اشیا انتہائی کم قیمت پر سامراجی ممالک کو فروخت کرنے پر مجبور تھے۔چین کی جانب سے مناسب قیمت پر ان ممالک کی اشیا کی خریداری کی وجہ سے جن میں افریقہ، لاطینی امریکا کے ممالک خاص طورپر شامل ہیں ،ان ممالک کی اقتصادی حالت پائیدار بنیادوں پر استوار ہونا شروع ہوگئی ہے۔چین کی حکومت نے دنیا کے غریب ممالک پر سے امریکا اور اس کے حواری ممالک کا شکنجہ کمزور کرنے اور غریب ممالک کو اپنی پیداوار زیادہ مناسب قیمت پر فروخت کرنے کیلئے ان ملکوں کی مختلف ممالک تک رسائی کو آسان بنانے کیلئے اب انفرااسٹرکچرز کی تعمیر کاسلسلہ بھی شروع کردیا ہے ،پاک چین اکنامک کوریڈور جو عرف عام میں سی پیک کے نام سے مشہور ہے چین کی اس حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔چین کی جانب سے شروع کیاجانے والا یہ سی پیک کا منصوبہ اس قدر پرکشش ہے کہ اب روس جیسا ملک بھی اس کاحصہ بننے کیلئے بے چین نظر آرہاہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے اس خطے کے تمام ممالک کی ایک دوسرے تک رسائی انتہائی آسان ہوجائے گی اور اس طرح ان ملکوں کے مابین تجارت اور ان ملکوں کے عوام کے روزگار کے نئے مواقع پیداہوجائیں گے۔
چین کی جانب سے دنیا کے کم وسیلہ ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے بڑھانے اوراپنی پیداوار بہتر قیمت پر فروخت کرنے کے قابل بنانے کیلئے سی پیک جیسے عظیم منصوبے شروع کئے جانے کے بعد اب امریکی انتظامیہ کو بھی ہوش آیا ہے اور گزشتہ دنوں امریکا کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں پوری دنیامیں انفرااسٹرکچر کی ترقی وبحالی اورتعمیر کیلئے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت کااظہار کیا ہے۔ امریکا کی وزارت خزانہ کی جانب سے پوری دنیامیں انفرااسٹرکچر کی بحالی ، مرمت اور تعمیراور اس کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت کا اظہار بھی دراصل امریکا کی جانب سے اب دنیا پر فوجی بالادستی قائم کرنے کی پالیسی کا ایک حصہ معلوم ہوتاہے کیونکہ امریکی پالیسی سازوں نے یہ اندازہ لگالیا ہے کہ چین کی جانب سے تعمیر کئے جانے والے سی پیک جیسے میگا پراجیکٹ کی تکمیل سے جہاں اس سے منسلک ممالک باہمی تجارت کو فروغ دینے اوراپنی اشیا مناسب قیمت پر فروخت کرنے کے قابل ہوجائیں گے وہیں اس طرح کے منصوبے فوجی اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ثابت ہوں گے اور ان کے ذریعے فوج کی تیزی سے نقل وحمل ممکن ہوسکے گی ۔یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے امریکا بھی چین کے مقابلے میں دنیا بھر میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر وترقی اوربحالی کیلئے سرمایہ کاری کی اہمیت اور ضرورت پر غور کرنے پر مجبور ہواہے۔
دنیا کی ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان اس خاموش مقابلہ آرائی کاکیانتیجہ نکلتاہے یہ تو وقت آنے پر ہی معلوم ہوسکے گا ۔تاہم ان تمام توقعات اور امیدوں کا بڑی حد تک انحصار دنیا کے غریب اور کم وسیلہ ممالک کے حکمرانوں پر ہے بدقسمتی سے جن کی اکثریت بدعنوان اور کرپٹ ہے جومحدود قومی وسائل کو بھی عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں اورتعلیم ،صحت ، صاف پانی کی فراہمی، گندے پانی کی نکاسی اور اسی طرح کی دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کرنے کے بجائے قومی وسائل کابڑا حصہ اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنے اور لوٹ مار کی اس دولت سے آف شور کمپنیاں قائم کرنے میں مصروف ہے اور یہ سلسلہ یقینا اس وقت تک نہیں رک سکتاجب تک کہ ان ملکوں کے عوام خود ہی اپنے حکمرانوں کا احتساب کرنے کیلئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں