پاک بھارت کرکٹ: میچ یا جنگ
شیئر کریں
اس ایونٹ کو دنیا بھر میں لاکھوں‘ کروڑوں انسانوں نے دیکھا، دور دراز کے دیہات میں ٹی وی پر، شہروں میں جمبو سائز ا سکرینوں پر اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تارکین وطن نے اپنے موبائل فونز پر۔ اتوار کو دبئی میں پاک بھارت کرکٹ ٹاکرے جیسے ایونٹ شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو مخالف ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کے عکاس ہیں۔ دو سال میں پہلی مرتبہ ہونے والا میچ‘ ورلڈ کپ کا حصہ تھا جس میں پاکستان نے بھارت کو شکست دے دی اور اس سے دو دن بعد منگل کو نیوزی لینڈ کو بھی ہرا دیا۔ پاک بھارت کشیدگی کی کئی وجوہا ت ہیں جن میں مقبوضہ کشمیر کا معاملہ سرفہرست ہیں‘ بھارت جس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا ہے کہ وہ وہاں کے آزادی پسندوں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ اس سے دونوں ممالک میں عدم برداشت کو فروغ مل رہا ہے؛ چنانچہ دونوں ممالک کے درمیان ہر طرح کے روابط ختم ہو چکے ہیں اور مشترکہ تاریخ اور کلچر کے باوجود یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
کشمیر میں متشدد کارروائیوں کے بعد بھارتی سیاسی لیڈروں کی طرف سے میچ کے بائیکاٹ کے مطالبے کے باوجود اتوار کو کرکٹ میچ ہوا کیونکہ بھارت کی کرکٹ تنظیموں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ ہم T20 ورلڈ کپ جیسے انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کے وعدوں سے منحرف نہیں ہو سکتے‘ خاص طور پر جب ان کی ٹیم جیت کے لیے فیورٹ مانی جا رہی تھی۔ پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا ’’ہمیں اپنا کرکٹ بونڈ برقرار رکھنا چاہئے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ کرکٹ کو جتنا سیاست سے دور رکھا جائے‘ اتنا بہتر ہو گا‘‘۔ جنوبی ایشیا میں کرکٹ برطانوی نو آبادیاتی حکومت کا ورثہ ہے، جیسا کہ نقاد اشیش نندی نے ایک دفعہ کہا تھا ’’بھارتی گیم انگریزوں کی اتفاقیہ دریافت ہے‘‘۔ جب 1947ء میں برصغیر سے برطانوی راج کا خاتمہ ہوا تو یہ دو ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ ایک نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا جو اس خطے کے کروڑوں مسلمانوں کا مسکن بن گیا۔ اپنی 75 سالہ تاریخ میں دونوں ممالک کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ جنگ نہ بھی ہو تو کشیدگی برقرار رہتی ہے۔ اس کشیدگی کے پیش نظر بعض اوقات ایک دہائی تک دونوں ٹیمیں میچ نہیں کھیلتیں، جبکہ ایسا بھی ہوا کہ 1999ء میں جب دونوں ایک دوسرے کے خلاف کشمیر میں برسر پیکار تھے تب انہوں نے کرکٹ ورلڈ کپ کھیلا تھا۔ مقبول پوڈ کاسٹ ’’The Seen and the Unseen‘‘ کے میزبان امیت ورما کہتے ہیں ’’کرکٹ اور بھارت کی کہانی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ متوازی چلتی رہتی ہے۔ ہماری کرکٹ اس حد تک فروغ پا چکی ہے کہ تجارتی تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کو اس کھیل پر بالادستی حاصل ہو چکی ہے‘‘۔ بلامبالغہ بھارت حالیہ برسوں میں کرکٹ کا ایک ایسا مرکزبن چکا ہے جہاں دنیا بھر کے بہترین کھلاڑی بھاری دولت کمانے کے لیے انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ یہ لیگ دنیا کی پا نچ سب سے زیادہ منافع بخش لیگز میں شامل ہے اور اچھے کھلاڑی دو مہینے کے سیزن میں 2 ملین ڈالرز سے زیادہ کما سکتے ہیں۔ مگر علاقائی کشیدگی کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں پر اس لیگ میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ اس طرح وہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں سے مقابلے یا دولت کمانے کے بڑے پلیٹ فارم سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دونوں ممالک میں حالیہ کشیدگی کی وجہ 2008ء کا ممبئی حملہ بنا جب بھارت نے مبینہ طور پر دہشت گردوں پر پاکستا نی ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ان دس برسوں میں کبھی کبھار دونوں ٹیمیں کسی نیوٹرل گرائونڈز پر میچ کھیلتی رہی ہیں مگر کرکٹ کے جنونی دونوں ممالک میں کرکٹ کی بڑی سرگرمیاں منسوخ رہیں۔ پاکستانی اور بھارتی کھلاڑی اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ جب کبھی وہ ایک دوسرے کے ممالک میں کرکٹ کھیلتے ہیں تو گرائونڈ میں پائی جانے والی کشیدگی اور تلخی کے برعکس عوام کی محبت اور مہمان نوازی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ شاپنگ کے لیے بازار جاتے ہیں تو دکاندار ان سے پیسے لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ میزبان کھلاڑی مہمان کھلاڑیوں کے لیے اپنے گھروں سے کھانے پکوا کر ہوٹلز میں ان کے کمروں میں بھیجتے ہیں۔ پاکستان کے سابق کپتان شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ آج سے دس سال پہلے میں نے پوری بھارتی ٹیم کی اپنے گھر دعوت کی تھی جہاں میں نے ان کے لیے سیخ کباب سمیت بہت سی ڈشز تیار کر رکھی تھیں۔ جب ٹیم گھر پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ زیادہ تر کھلاڑی ویجیٹیرین یعنی سبزی خور ہیں۔ مجھے فوری طور پر ان کے لیے سبزیوں اور دالوں کا بندوبست کرنا پڑا۔
وکی لوتھرا‘ جو نئی دہلی میں ایک فوٹو سٹوڈیو چلاتے ہیں‘ پاک بھارت کرکٹ کے اتنے پکے فین ہیں کہ وہ 2017ء میں ایک میچ دیکھنے کے لیے انگلینڈ پہنچ گئے جہاں انہیں صرف اپنے لیے ایک میچ ٹکٹ 400 پونڈ دے کر خریدنا پڑی۔ ان کا کہنا ہے ’’میں اپنا چہرہ پینٹ نہیں کر سکتا، میں کوئی ڈرامہ نہیں کر سکتا، میں ایک جینٹل مین ہوں اور کرکٹ کا ایک عام تماشائی مگر میں ہمیشہ چاہتا ہوں کہ بھارت جیت جائے‘‘۔ وہ بڑے شوق سے یاد کرتے ہیں کہ کس طرح وہ 2006ء میں لاہور میں ہونے والا پاک بھارت میچز دیکھنے کے لیے پیدل پاک بھارت سرحد پر پہنچ گئے تھے۔ وہ لاہور جانے کے لیے بہت پْرجوش تھے۔ ان کے دادا‘ دادی انڈیا کے اس حصے سے آئے تھے جو بعد میں پاکستان میں شامل ہو گیا تھا مگر ان کی بیوی انہیں اکیلے نہیں جانے دے رہی تھی۔ وکی لوتھرا نے بتایا ’’میری بیوی میرے پاکستان جانے کے بہت خلاف تھی، مگر وہ یہ جان کر حیران رہ گئی کہ میرا یہ تجربہ کتنا شاندار رہا۔ پاکستان کے لوگ بہت مہمان نواز تھے، یہ کرکٹ تھا جس کی بدولت میں پاکستان کے یہ حصے دیکھ سکا‘‘۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں کرکٹ زبوں حالی کی شکار رہی ہے مگر اس کے پاس 1980ء اور1990 ء کی دہائیوں میں شاندار کھلاڑی موجود تھے۔ عمران خان‘ جو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں‘ کی ساری شہرت کرکٹ کی مرہونِ منت ہے۔ انہوں نے ہی پاکستان کے لیے 1992ء کا واحد کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ 2009ء میں جب لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تھا‘ اس کے بعد‘ دس سال بعد تک پاکستان میں کرکٹ کا ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں ہو سکا۔ اب عالمی کرکٹ ٹیموں نے آہستہ آہستہ پاکستان کا دورہ کرنا شرو ع کیا ہے مگر ورلڈ کپ سے محض ایک ہفتہ قبل پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم سکیورٹی کو جواز بنا کر اچانک اپنا دورہ منسوخ کرکے واپس چلی گئی تھی۔ اس کے بعد انگلینڈ نے بھی پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ اتوار کو بھارت کے خلاف پاکستان کی جیت کا جشن رات گئے تک منایا جاتا رہا۔ میچ کی وجہ سے پورا پاکستان بند تھا‘ ریستوران اور چائے خانے میچ کے شائقین سے بھرے ہوئے تھے۔ شام 7 بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک‘ تمام سڑکیں اور شاپنگ سنٹر ویران نظر آ رہے تھے۔
پاکستان کی فتح کا جشن منانا مقبوضہ کشمیر کے ان طلبہ کو بہت مہنگا پڑا جن کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہو گئے۔ بھارتی کھلاڑیوں کے مایوس کن کھیل اور میچ کے بعد بھارتی کپتان ویرات کوہلی کے پاکستانی کھلاڑیوں کو جیت پر مبار ک دینے پر بھارتی شائقین سیخ پا ہو گئے۔ ٹیم کے واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم شروع ہو گئی۔ پاکستان کی جیت پر ایک طالبعلم عمار برلاس نے مٹھائی تقسیم کی۔ اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر یہ میچ دیکھا تھا۔ منگل کو اس نے بتایا ’’میں اور میرا دوست ابھی تک اس فتح کے نشے میں ہیں‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔