پیپلزپارٹی کی خاندانوں کو تقسیم کرنے کی سازش بے نقاب ارباب خاندان کے 90 فیصد ارکان متحد‘ ارباب لطف کا شو فلاپ
شیئر کریں
ٹھٹھہ کے شیرازی برادران نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کی پیش کش ٹھکرادی اورمتحد رہ کرمسلم لیگ کی قیادت پر مکمل اعتماد کااظہارکیا
فاقی حکومت ڈانوا ڈول ہے‘ عام الیکشن قریب ہے اگر پی پی کے خلاف بھی احتساب کا عمل شروع ہوا توکسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا
بے نظیردور میںزرداری نے بی بی کی عدم موجودگی میں اجلاس بلاکرارباب رحیم کے گھرپرچھاپے کی مشاور ت کی‘خورشیدشاہ نے روک دیا
الیاس احمد
محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت اور سیاسی جدوجہد سے انکار نہیں ہے انہوں نے جس ماحول میں سیاست کی وہ قابل ستائش ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ مزاحمت کی سیاست کی اور سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑکوں پر لائیں۔ انہوں نے سیاست میں کئی اہم مثالیں قائم کیں اور سیاست میں اچھی روایات بھی ڈالیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی مقبولیت کے باوجود سیاست میں خاندانوں کو تقسیم کیا۔ سب سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو نواب سلطان چانڈیو کے مقابلے کے لیے ان کے سگے بیٹے نواب شبیر چانڈیو کو آگے لائیں اور بیٹے کو ٹکٹ دیا کہ وہ باپ کا مقابلہ کریں یوں باپ کو شکست اور بیٹے کی جیت ہوئی۔ پھر ضلع نوشہرو فیروز میں غلام مرتضیٰ جتوئی نے انکشاف کیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کو پیشکش کی ہے کہ وہ اپنے والد غلام مصطفی جتوئی کے خلاف الیکشن لڑیں تو انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا لیکن غلام مرتضیٰ جتوئی نے اس پیشکش پر معذرت کرلی۔ 2008ء کے عام الیکشن سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو نے ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے خالد احمد لُوند کے کزن کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے خاندان میں سے کسی ایک کو پی پی میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن معاملات نہیں بنے۔ اب یہی روش آصف علی زرداری نے شروع کردی سب سے پہلے مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما امتیاز شیخ کے بھائی مقبول شیخ کو پیپلز پارٹی میں شامل کرایا بعدازاں امتیاز شیخ بھی فنکشنل لیگ چھوڑکر پی پی میں آ گئے۔ اسی طرح جام صادق کے خاندان کو تقسیم کیا گیا جام مدد علی کو پی پی میں شامل کیا گیا ان کے کزن جام معشوق علی تاحال مسلم لیگ میں ہیں۔ پھر پی پی پی کی پوری قیادت نے ٹھٹھہ کے شیرازی برادران پر توجہ دی لیکن شیرازی برادران متحد رہے ۔یہاں سے ناکامی پر تھر کے ارباب گروپ سے رابطہ کیا گیاپہلے تو ارباب غلام رحیم نے کھل کر انکار کیا ان سے 2008ء اور 2013ء میں سید خورشید شاہ کے ذریعہ رابطہ کیا گیا تھا اور قومی اسمبلی کا ایک ٹکٹ اور صوبائی اسمبلی کے دو ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن انہوں نے بھی معذرت کرلی پھر مختلف اوقات میں انہیں کئی اہم عہدوں کی پیشکش ہوئی لیکن ان کا ایک ہی نکتہ نظر تھا کہ پیپلز پارٹی نے کرپشن کی انتہا کردی ہے اور سندھ کا بیڑا غرق کردیا ہے اور وہ ایسی پارٹی میں شامل ہونے سے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کو ترجیح دیں گے۔
ارباب غلام رحیم نے 1985ء سے ڈسٹرکٹ کونسل میرپور خاص کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ پھر وہ ایم پی اے رہے صوبائی مشیر رہے، ایم این اے رہے، وزیر مملکت اور وفاقی وزیر رہے، پھر سندھ میں وزیر اور وزیراعلیٰ رہے۔ ان سے ہزار اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن وہ ذاتی طورپر کرپشن سے دور رہے ہیں۔ انہوں نے کرپشن کے خاتمہ کا دعویٰ تو کبھی نہیں کیا ہاں اپنی وزارت اور وزارت اعلیٰ کے دور میں انہوں نے کرپشن کم کرنے کی کوشش ضرور کی وہ 1993ء میں پرویز علی شاہ کے کہنے پر پی پی میں شامل ہوئے کیونکہ پرویز علی شاہ نے ان کو یقین دلایا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ بن رہے ہیں لیکن وہ تو وزیراعلیٰ نہ بن سکے مگر ارباب رحیم کے اس وقت کی پی پی حکومت سے اختلافات ضرور اُبھرے اور ایک ایسا وقت بھی آیا جب اسلام آباد میں ایک اجلاس میں محترمہ بینظیر بھٹو کی عدم موجودگی میں آصف زرداری نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ ارباب رحیم کے گھر پر چھاپے مارے جائیں تو اس وقت سید خورشید شاہ نے سخت مخالفت کی یوں یہ معاملہ وہیں دب گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک پی پی کی قیادت جب بھی ارباب رحیم سے بات کرتی ہے تو یہ ذمہ داری سید خورشید شاہ کو دیتی ہے۔ سید خورشید شاہ کے ارباب رحیم سے اس وقت سے اچھے تعلقات ہیں اس بار جب ارباب رحیم کو چھوڑکر ارباب لطف سے رابطہ کیا گیا تو سید خورشید شاہ کو دور رکھا گیا یہ کام تھر کے چند خاندانوں کے ذریعہ کرایا گیا۔ ارباب لطف اصل میں ارباب رحیم کے سگے بھتیجے ہیں ان کو سبز باغ دکھائے گئے کہ آئندہ الیکشن میں بھی پی پی کامیاب ہوگی۔ اس لیے ان کو آئندہ تھر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم وزارت دی جائے گی۔ تھرکول اتھارٹی، تھر پاور پلانٹ جیسے منصوبوں کا نگران بنایا جائے گا۔ تھر کے عوام کی اکثریت نے ارباب لطف سے اتفاق نہیں کیا نہ صرف تھر کے عوام بلکہ ارباب خاندان کی اکثریت نے بھی ارباب لطف کو مسترد کردیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ پوری صوبائی مشنری استعمال کرنے کے باوجود ارباب لطف نے جو جلسہ کیا اس میں بمشکل دو ہزار افراد شامل ہوسکے۔ یوں ان کا پہلا سیاسی رائونڈ ناکام گیا۔ ارباب لطف ایک ایسے وقت میں پی پی میں شامل ہوئے جب وفاقی حکومت ڈانوا ڈول ہے اور پھر عام الیکشن میں آٹھ دس ماہ باقی ہیں۔ اگر پی پی کے خلاف بھی احتساب کا عمل شروع ہوا اور پی پی میں گروپ بندی ہوئی تو ارباب لطف کو کچھ نہیں ملے گا۔