آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں
شیئر کریں
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
سوال: شوال کے روزوں سے متعلق پوچھناہے ،ہمارے یہاں لوگ بڑے اہتمام سے یہ روزے رکھتے ہیں، کیایہ روزے ثابت ہیں؟ان روزوں کی فضیلت کیاہے؟تفصیلی جواب مطلوب ہے۔
جواب: رمضان کے بعدماہ شوال میں چھ روزے رکھنے کاکئی احادیث مبارکہ میں ذ کرآتاہے،جنہیں شش عیدکے روزے بھی کہاجاتاہے، یہ روزے بڑے اجروثواب اوربرکت وفضیلت کے حامل ہیں۔رمضان المبارک کے روزوں کے بعدان چھ روزوں کااہتمام کرناایساہے گویاانسان پوری زندگی روزے رکھتارہا۔اللہ تعالیٰ کاکس قدراپنے بندوں پرکرم واحسان اورفضل وعنایت ہے کہ سال بھرمیں صرف۳۶روزے رکھنے پرپورے سال روزے رکھنے کااجروثواب عنایت فرماتے ہیں۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے:’’حضرت ابوایوب انصاریصسے روایت ہے کہ رسول اللہا نے فرمایاجس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے بعدماہ شوال میں چھ(نفلی)روزے رکھے تواس کایہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابرہوگا‘‘۔(مشکوۃ شریف)
محدثین نے اس حدیث کی شرح میں لکھاہے کہ ان چھ روزوں کو’’صوم دھر‘‘یعنی ہمیشہ روزے رکھنے کے برابراس لئے قراردیاہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بندوں کوایک نیکی پردس گنازیادہ ثواب عطاکیاجاتاہے،تویہ تشبیہ مبالغہ اورشوال کے چھ روزوں پرترغیب وتحریص کے لئے بیان فرمائی گئی ہے۔(طیبی شرح مشکوۃ)
مطلب یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنے پریہ ثواب محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حاصل ہوتاہے جس کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک نیکی پردس گنااجرملتاہے اورجب کسی نے رمضان المبارک کے تیس روزے رکھنے کے بعدشوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے تواس کے کل چھتیس روزے ہوگئے اورہرروزہ پردس روزوں کے ثواب کاوعدہ ہے لہذاچھتیس کودس کے ساتھ ضرب دیں توکل۳۶۰ہوجاتے ہیں،اورسال کے قمری حساب سے تین سوساٹھ دن ہوتے ہیںلہذاچھتیس روزے رکھنے پراسے اللہ تعالیٰ تین سوساٹھ روزوں کاثواب عنایت فرمائیں گے۔
حاصل یہ کہ رمضان کے بعدشوال کے چھ روزے رکھنے پر’’الحسنۃ بعشرامثالھا‘‘(ایک نیکی دس کے برابر)کے اصول کے تحت اُسے پورے سال کے روزوں کے برابرثواب حاصل ہوگیااوراگرکوئی بندہ ہرسال اسی طرح کرتارہے تواسے زندگی بھرروزے رکھنے کاثواب حاصل ہوگا۔
پھرماہ شوال کے ان مستحب نفلی روزوں کوعیدکے بعددوسرے دن ہی سے رکھناضروری نہیں بلکہ اختیارہے خواہ مہینے کے شروع میں رکھیں، یادرمیان میں،یاآخرمیں،اوریہ بھی اختیارہے کہ مسلسل رکھیں یامتفرق طورپرعلیحدہ علیحدہ ،شرعی طورپرکوئی پابندی نہیں ہے بہرصورت فضیلت حاصل ہوگی کیونکہ حدیث میں ایسی کوئی قیدنہیں ہے۔
بہرحال جس طرح ممکن ہویہ روزے رکھنے چاہئیںاس لئے کہ ان روزوں کی فضیلت میں نبی کریم کے متعددارشادات واردہوئے ہیں۔چنانچہ شیخ الحدیث مولانازکریارحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرصفرماتے ہیں نبی اکرم انے فرمایا!جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعدشوال کے چھ روزے رکھ لئے تووہ گناہوں سے ایساپاک ہوگیاجیسے وہ ماں کے پیٹ سے پیدائش کے دن پاک تھا‘‘۔(اوجزالمسالک بحوالہ طبرانی)
خداتعالیٰ کی کیسی بے انتہاء رحمت ہے کہ معمولی سی محنت پرزندگی بھرروزے رکھنے کاثواب عظیم عطافرمانے کیلئے بہت ہی آسان طریقہ بیان فرمادیا۔حق تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطافرمائے۔آمین
پٹی پر مسح کرنے کا حکم
سوال: ہاتھ کے ایک حصہ پرزخم ہوگیاہے اور پٹی بندھی ہوئی ہے،مجھے یہ پوچھناہے کہ وضو کرتے وقت میں پٹی پر مسح کروں ؟یا کیا صورت ہوگی؟کیونکہ پٹی کوکھول نہیں سکتا۔
جواب: پٹی پر مسح کرنادرست ہے، جب تک زخم درست نہیں ہوتااور پٹی کوکھولنے اور مخدوش حصہ دھونے سے زخم بڑھنے کااندیشہ ہوتواس وقت تک پٹی پر مسح کرسکتے ہیں۔(فتاویٰ شامی 1/281،ط:ایچ ایم سعید)