میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایٹمی اسلحہ کی دوڑ روکنے کے لیے بامقصد اقدامات پر اتفاق رائے کی ضرورت

ایٹمی اسلحہ کی دوڑ روکنے کے لیے بامقصد اقدامات پر اتفاق رائے کی ضرورت

ویب ڈیسک
جمعه, ۳۰ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے گزشتہ روز کہا ہے کہ پاکستان خطے میں اسلحے کی دوڑ پر یقین نہیں رکھتا اور اس بات پر قائم ہے کہ ہمسایہ ممالک کو ایٹمی اسلحے کی دوڑ روکنے کے لیے بامقصد اقدامات پراتفاق کرنا چاہیے۔ریڈیو پاکستان کو دیے گئے انٹرویو کے دوران بھارت کو ایٹمی تجارت کے لیے استثنیٰ سے خطے پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ایک سوال پر نفیس زکریا نے واضح کیا کہ اس طرح کے خصوصی رویے اوراستثنیٰ سے علاقائی استحکام خراب ہوگا جبکہ عدم پھیلاؤ کے عالمی ادارے کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔
پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ 2008 میں استثنیٰ ملنے کے بعد سے بھارت نے فوجی مقاصد کے لیے افزودہ مواد پیدا کرنے کی صلاحیت میں بڑے پیمانے میں اضافہ کیا ہے جو خطے میں اسٹریٹیجک استحکام کے خلاف ہے۔ جہاں تک نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کا تعلق ہے تو پاکستان عالمی برادری پر ثابت کرچکاہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے جو نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کی اہلیت رکھتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ این ایس جی میں پاکستان کی شمولیت سے گروپ کو تخفیف اسلحہ اور ایٹمی عدم پھیلاؤ میں مدد ملے گی کیونکہ پاکستان گروپ کے توانائی اور برآمد سے متعلق رہنما اصولوں کی پاسداری کرتا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال اور تحفظ کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں اور تھنک ٹینک کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹس میں بھی پاکستان کے ایٹمی تحفظ کی تعریف کی گئی ہے۔پاکستان کی جانب سے بھارت کو ایٹمی اسلحہ محدود کرنے کی پیشکش اب بھی برقرار ہے۔ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پردستخط نہ کرنے والے ممالک کی نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت پر نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ پاکستان گروپ کی رکنیت کے لیے شفاف، بامقصد، بلاتفریق اوراہلیت پرمبنی طریقۂ کار اختیار کرنے پر یقین رکھتا ہے۔
پاکستان بار بار مختلف عالمی فورمز پر ہتھیاروں میں استعمال ہونے کے قابل بھارت کے غیر محفوظ فیزائل (قابل انشقاق)جوہری مواد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتارہا ہے اور یہ واضح کرتارہاہے کہ ’یہ اضافہ 2008 میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی جانب سے بھارت کو دیے جانے والے استثنیٰ کی وجہ سے ہورہا ہے جس نے نہ صرف جوہری عدم پھیلاؤ نظام کی ساکھ اور اثر انگیزی کو نقصان پہنچایا بلکہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک توازن پر بھی منفی اثر ڈالا‘۔تاہم یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ این ایس جی نے بھارت سے جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے کوئی کار آمد عہد نہیں لیا۔ جوہری ماہرین کی جانب سے کی جانے والی نئی اور اہم تحقیق میں بھی انکشاف کیا گیا کہ بھارت 356 سے 492 جوہری ہتھیار تیار کرسکتا ہے اور یہ تعداد مغربی اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ بھارت کا بڑھتا ہوا عسکری جوہری پروگرام خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔پاکستان کے ان خدشات کو اب بھارت میں فیزائل میٹیریل کی تنصیبات اور ہتھیاروں میں استعمال کے قابل فیزائل میٹیریل میں اضافے کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی رپورٹس نے سچ ثابت کردیا ہے۔ اس صورت حال میں یہ واضح امر ہے کہ این ایس جی کی رکنیت کے حوالے سے اگر پھر کسی ملک کے ساتھ رعایت برتی گئی یا استثنیٰ دیا گیا تو اس سے 2008 میں دیے گئے استثنیٰ کے منفی اثرات مزید بڑھ جائیں گے۔
یہ بات پوری دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے جنگی جنون میں اضافے کے نتیجے میں اب بھارت ایک بار پھر دنیا بھر میں اسلحے کے سب سے بڑے خریدار کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے ، سوئیڈش ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت نے گزشتہ5 سال میں اپنے قریب ترین حریفوں چین اور پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ اسلحہ خریدا۔اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2009-13کے درمیان گزشتہ5 سال کے مقابلے میں اسلحے کی خریداری میں 14 فیصد اضافہ دیکھاگیا۔ 2004-2008 کی نسبت گزشتہ5سال میں بھارت کی جانب سے اسلحے کی درآمدات میں 111 فیصد اضافہ ہوا اور اسلحے کی عالمی درآمدات میں اس کے حصے میں7 سے 14 فیصد اضافہ ہوا۔بھارت 2010 میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بن گیا تھا جہاں اس نے چین کو اس منصب سے ہٹادیا تھا۔
بھارت کے مقابلے میں جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے تو پاکستان نے ہمیشہ جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کیاہے اور افہام وتفہیم کی راہ اختیار کیے رکھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلحہ کی خریداری کے حوالے سے بھی پاکستان کا ریکارڈ بہت صاف ہے اور پاکستان نے ہمیشہ صرف اپنے دفاع کومستحکم کرنے کے لیے ضروری اسلحہ ہی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اس بار این ایس جی کے رکن ممالک بھارت کو رکنیت دینے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ حقائق مد نظر رکھیں گے اور اس حوالے سے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے اور اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ ان کے فیصلے سے عدم پھیلاؤ کے نظام اور خطے کے اسٹریٹجک استحکام پر کیا اثر پڑے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں