زافافارما ادویات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ میں سب سے آگے
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل) پاکستان میں کام کرنے والے ہر ادویہ ساز ادارے اور ان کے مالکان کی کوئی نہ کوئی شناخت موجود ہے، منی لانڈرنگ کا ذکر کرتے ہی ذہن میں گیٹز کے خالد محموداور ہلٹن فارما کے یاسین ملک کا نام گونجنے لگتا ہے، اسی طرح منافقت اور بھارت نوازی کی بات کی جائے تو انڈس فارما کے زاہد سعید اس میں سرفہرست ہیں، قیصر وحید کی شناخت جعلی اور غیر معیاری ادویات بنانے اور اور اس طرح کی دیگر کمپنیوں کو غیر قانونی طریقے سے خام مال فروخت کرنے کی ہے۔ لیکن جب ادویات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کا ذکر ہو تو پھر اس ضمن میں زافا فارما کے جواد امین خان کا نام نہ لینا یقینا ان کے ’عظیم الشان کارناموں‘ کو فراموش کرنے کے مترادف ہوگا۔
زافا لیباریٹریز کی ایسی بہت سی ادویات جو مارکیٹ میں دست یاب ہی نہیں، ان کا خام مال باقاعدگی سے درآمد کیا جا رہاہے، لیکن اس درآمد شدہ خام مال کے استعمال کے بارے میں بالکل خاموشی ہے
پاکستان میں سب سے سستی ادویات فراہم کرنے کا دعویٰ کرنے والے جواد امین خان خود کو اپنے طور پر پاکستان کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کا ڈان بھی سمجھتے ہیں۔ انتہائی معمولی ملازمت کرنے والے امین خان کے بیٹے جواد امین کو اس احساس برتری میں مبتلا کرنے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جن کی بدولت کریم آباد، کراچی کے ایک دوکمروں کے مکان سے شروع ہونے والا کارخانہ آج گروپ آف کمپنیز میں بدل چکا ہے۔ اگر ادویہ سازی میں منافع کی شرح ایک ہزار فیصد سے بھی زائد ہو، تب بھی لاکھوں روپے کی کمپنی کو اربوں روپے مالیت کی گروپ آف کمپنیز میں تبدیل کردینا کسی طور ممکن نہیں۔ جواد امین خان کا یہ دعوی تو کافی حد تک ٹھیک ہے کہ وہ پاکستان میں سستی ادویات فراہم کرنے والی کمپنی کے مالک ہیں (سستی ادویات کی تیاری اور اس کے خام مال کے بارے میں حقائق جلد ہی شائع کیے جائیں گے) لیکن ان ’سستی ادویات‘ میں سے اکثر و بیشتر مارکیٹ میں دست یاب ہی نہیں ہوتیں۔ اور یہی ادویات زافا کے لیے سالانہ اربوں روپے کے ناجائز منافع کمانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ زافا لیباریٹریز کی ایسی بہت سی ادویات جو مارکیٹ میں دست یاب ہی نہیں ہیں، ان کا خام مال باقاعدگی سے درآمد کیا جا رہاہے، لیکن اس درآمد شدہ خام مال کے استعمال کے بارے میں بالکل خاموشی ہے۔ زافا کے ان کالے دھندوں کو فروغ دینے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی برابر کی شریک ہے۔ زافا لیباریٹریز نے NEO-Kکے نام سے ایک دوا کو رجسٹرڈ کروا رکھا ہے، جس کا رجسٹریشن نمبر 000857ہے۔ اسی طرح زافا نے ایک او آر ایس(اورل ری ہائیڈریشن سالٹ) رجسٹریشن نمبر 022236کے ساتھ ORAZAFکے نام سے رجسٹرڈ کروا رکھا ہے۔ زافا فارما HARTMANS SOLUTIONکے نام سے ایک ڈرپ بھی تیار کرتی ہے۔ درج بالا تینوں ادویات کا موثر جز ’POTASSIUM CHLORIDE‘ ہے۔ زافا فارما کی مذکورہ ادویات گزشتہ کئی سالوں سے مارکیٹ میں دست یاب نہیں ہیں، لیکن اس کا موثر جُز ہر سال باقاعدگی سے درآمد کروایا جا رہا ہے۔ زافا فارما کی جانب سے درآمد کیے جانے والے ’پوٹاشیم کلورائیڈ‘ کا درآمدی ریکارڈ چیک کیا جائے تو گزشتہ چھ سالوں میں زافا فارما مجموعی طور پر 37/ہزار 500 کلو پوٹاشیم کلورائیڈدرآمد کرواچکی ہے۔ اکیس مارچ،2013کو زافا نے بھارتی شہر ممبئی میں واقع لاجسٹک کمپنی سے C.W. FREIGHT LINES پوٹاشیم کلورائیڈ کے 150بیگ (ساڑھے سات سو کلو گرام) درآمد کروائے، اس شپمنٹ کا بل آف لیڈنگ نمبر FBLMUMKH031304412 تھا۔ زافا نے بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں قائم RASINO HERBS پرائیوٹ لمیٹڈ سے مذکورہ خام مال کے سو بیگز(پانچ سو کلوگرام) خریدے، جوبل آف لیڈنگ نمبر250114000062کے ساتھ یکم فروری، 2014کو کراچی پہنچے۔ 24اپریل،2015کو زافا نے RASINO HERBSسے سو بیگز پوٹاشیم کلورائیڈ منگوایا،جس کا بل آف لیڈنگ نمبر 250115000404تھا۔ زافا نے چار مئی، 2016کو پوٹاشیم کلورائیڈ کی پانچ سو کلو گرام کی ایک شپمنٹ وصول کی جسے جواہر لعل نہرو بندرگاہ سے بل آف لیڈنگ نمبر کے ساتھ مارشل آئی لینڈ کے کنٹینر بردار بحری جہازMOL DEDICATION سے کراچی بھیجا گیا تھا۔ انیس جون، 2017کو RASINO HERBSسے خریدے گئے پانچ سو کلو گرام پوٹاشیم کلورائیڈ کو کراچی درآمد کیا گیا۔ بھارت کی مندرا بندرگاہ سے پاناما کے کنٹینر بردار بحری جہازKMTC MUMBAI سے آنے والی اس شپمنٹ کا بل آف لیڈنگ نمبر 229017000628تھا۔ گزشتہ سال 18مئی کو زافاکو پوٹاشیم کلورائیڈ کی پانچ سو کلو گرام کی ایک اور شپمنٹ موصول ہوئی۔ RASINO HERBS سے خریدے گئے اس خام مال کو جواہر لعل نہرو بندرگاہ سے پرتگال کے کنٹینر بردار بحری جہازMOL GATEWAYسے کراچی روانہ کیا گیا تھا، اس کا بل آف لیڈنگ نمبر 229018001295تھا۔ زافا فارما نے رواں سال 25فروری کو ہی RASINO HERBS، بھارت سے درآمد کی جانی والی پوٹاشیم کلورائیڈ کی ایک شپمنٹ وصول کی ہے۔ مذکورہ خام مال کے سو بیگز(پانچ سو کلو گرام) کو برطانیا کے کنٹینر بردار بحری جہاز HYUNDAI VANCOUVERکے ذریعے بل آف لیڈنگ نمبر 229019000381کے ساتھ کراچی بھیجا گیا تھا۔ زافا فارما کا صرف ایک خام مال کا درآمدی ریکارڈ ہی جواد امین خان کے کالے دھندوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، اگر گزشتہ چھ سال میں اس خام مال سے تیار ہونے والی مذکورہ بالا تینوں ادویات کا پیداواری ریکارڈ ہی چیک کرلیا جائے تو سچ اور جھوٹ سامنے آجائے گا۔ ڈرگ ایکٹ 1976اورڈریپ ایکٹ2012کے تحت ادویہ ساز کمپنیاں رجسٹرڈ کی گئی ہر دوا کی مارکیٹ میں دست یابی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہیں، اسی طرح ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کی جانب سے ادویہ ساز اداروں کی نگرانی کے لیے بھاری مشاہروں پروفاقی ڈرگ انسپکٹر تعینات کیے گئے ہیں، جن کی بہت سی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری کسی بھی دوا کے لیے درآمد کیے گئے خام مال کے درست استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن سندھ میں کام کرنے والے وفاقی ڈرگ انسپکٹر بشمول خواتین کے لیے یہ ذمہ داری ’مال‘ بنانے کا اہم ذریعہ ہے۔ گیٹز اور ہلٹن فارما کی منی لانڈرنگ ہو، یا قاتل کمپنی افروز کی خام مال میں ملاوٹ، جی ایس کے پاکستان اور زافا فارما کی ناجائز منافع خوری ہو یا قیصر وحید کی ادویات کے خام مال میں ہیرا پھیری یہ سب کام انہی وفاقی ڈرگ انسپکٹرز کی ’آشیر باد‘ سے سر انجام دیے جا رہے ہیں۔ جب کہ صوبائی ڈرگ انسپکٹرز بھی اس کام میں ’حصہ بقدر جثہ‘ شامل ہیں۔