منکی پاکس اور ویکسین کی فراہمی کا مسئلہ
شیئر کریں
اسلام آباد میں منکی پاکس کے 20 کیس رپورٹ ہونے کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ملک بھر کے ایئر پورٹ کو الرٹ جاری کیا ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منکی پاکس یا ایم پاکس کے دو مثبت کیس رپورٹ ہونے کے بعد سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے صحت کے محکموں میں ہائی الرٹ جاری کر دیے۔ دونوں صوبوں کے ہسپتالوں میں متوقع مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈز قائم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے۔ڈائریکٹر جنرل سندھ ہیلتھ سروسز نے بھی صوبے کے متعدد ہسپتالوں کو ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے انہیں ایم پاکس کیسز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل سندھ ہیلتھ سروسز کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر یا جی پی ایم سی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ یا این آئی سی ایچ، ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال اور سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل ہسپتال کراچی کو ایم پاکس کیسز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے اور علیحدہ وارڈز قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس کے علاوہ لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد، شہید بینظیر آباد پیپلز میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال نواب شاہ، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر، چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال لاڑکانہ، سول ہسپتال خیرپور، گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز خیرپور، سید عبداللہمیڈیکل سائنسز انسٹی ٹیوٹ سیہون اور جیکب آباد میڈیکل سائنسز انسٹی ٹیوٹ کو بھی ہدایت کی گئی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل سندھ ہیلتھ سروسز کے نوٹیفکیشن میں تمام ہسپتالوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایم پاکس کے مشتبہ یا تصدیق شدہ کیسوں کے انتظام کے لیے مکمل اقدامات کیے جائیں، جن میں مریضوں کی محفوظ و موثر دیکھ بھال کے لیے مخصوص جگہ یا آئی سولیشن وارڈز قائم کیے جانا بھی شامل ہے۔تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو کسی بھی مشتبہ کیس کی نشان دہی کے لیے چوکنا رہنے، 24 گھنٹے ا سٹاف اور مریضوں کے ہاتھوں کی صفائی کی سہولیات اور ذاتی حفاظتی آلات سمیت انفیکشن کنٹرول کے مناسب اقدامات کی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایم پاکس کے مریضوں کو آئسولیٹ کرنے کے لیے پانچ سے دس کمروں کے ساتھ آئسولیشن وارڈز قائم کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق ’منکی پاکس کا وائرس متاثرہ شخص سے دوسرے شخص ساتھ بیٹھنے یا خراب جلد کے چھونے سے ہو سکتا ہے۔’یہ وائرس جسم میں خراب جلد، سانس کی نالی، یا لعابی جھلیوں جیسے آنکھ، ناک اور منہ کے ذریعے داخل ہو سکتا ہے۔‘:’یہ بھی ایک وائرس ہے مگر کرونا (کورونا) وائرس کی نسبت زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ اس وائرس سے عام طور پر متاثرہ فرد کے جسم پر چکن پاکس یا خسرہ کی طرح جسم پر پھنسیاں نکل آتی ہیں، جن سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔’اس وائرس سے اموات کی شرع کوویڈ وائرس کے مقابلے میں بہت کم ہے اور متاثر مریض عام طور پر دو سے تین ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔‘محکمہ صحت سندھ کی جانب سے ایم پاکس پر نامزد فوکل پرسن ڈاکٹر محمد آصف سید کا کہناہے کہ ’اس وائرس سے بچنے کے لیے ہر چیز پر جراثیم کش سپرے صرف پیسوں کا ضیاع ہے۔‘ان کے مطابق: ’اگر کوئی فرد کسی ایسے ملک سے آیا ہو عالمی صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ مرض منکی پاکس نام کے وائرس سے ہوتا ہے جو پہلی بار ڈنمارک میں 1958 میں دریافت ہوا تھا۔انسانوں میں اس وائرس کی پہلی تشخیص 1970 میں کانگو میں ہوئی تھی، جبکہ یہ وائرس عالمی طور پر وبا کی صورت میں 2022 سے سامنے آیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ وائرس آمنے سامنے بات چیت کرنے، جلد کا جلد سے ملنا، بوسہ دینے، تھوک کے ذرات منہ میں جانے سے پھیلتا ہے۔ اس وائرس کے باعث بخار، جسم پر پھوڑے نکلنا، سر درد، گلے کی سوجن، پٹھوں کا درد اور دیگر علامات ہو سکتی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یکم جنوری 2022 سے 24 اپریل 2023 کے دوران 111 ممالک میں 87 ہزار 113 مثبت کیس سامنے آ چکے ہیں جب کہ 130 اموات ہو چکی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً ایک درجن افریقی ممالک میں ہر سال منکی پاکس کے ہزاروں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں تقریباً 6000کیسز کانگو اور 3000 کا تعلق نائجیریا سے ہوتا ہے۔ یہ وائرس عام طور پر افریقی ممالک میں تشخیص ہو رہا تھا اور گزشتہ برس مئی میں برطانیہ’سپین اور کینیڈا میں اس بیماری کے 92 تصدیق شدہ جبکہ 28 مشتبہ کیس رپورٹ ہوئے جس کے بعد پاکستان میں بھی ایئر پورٹس پرمذکورہ ممالک سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کا سلسلہ شروع کردیا گیا تاہم پہلی بار یہ وائرس سعودی عرب سے 17 اپریل کو واپس آنے والے ایک مسافر میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر تشخیص کیا گیا،منکی پاکس کے مرض میں متاثرہ شخص کو بخار اور جسم پر دانے جن میں پانی بھرا ہوتا نمودار ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق افریقی ممالک میں مانیٹرنگ کا نظام ناقص ہونے کی وجہ سے یہ
بیماری دوسرے ممالک میں پھیلتی ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس سے منکی پاکس کے کیسز یورپ اور امریکہ میں رپورٹ ہونا شروع ہوئے تھے کیونکہ متاثرہ شخص میں بیماری کی علامات ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے اس لئے ایئر پورٹس پر مانیٹرنگ مشکل ہوتی ہے۔ یورپ کے بعد اب بیماری پاکستان کا راستہ دیکھ چکی اور چند دنوں میں متاثرہ افراد کی تعداد 20 بتائی جا رہی ہے، اب سوڈان سے سعودی عرب کے تعاون سے کئے جانے والے ریسکیو آپریشن کے ذریعے جان بچاکر پاکستان لائے جانے آوالے پاکستانیوں میں بھی وائرس کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت ایئر پورٹ پر مانیٹرنگ کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ ہی فوری طور پر منکی پاکس کی ویکسین بھی منگوائے تاکہ بروقت ویکسی نیشن کے ذریعے وبا کو پھیلنے سے روکا جا سکے کیونکہ اس حوالے سے افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ منکی پاکس سے حفاظت کی ویکسین مبینہ طور پر دستیاب نہیں ہے یوں مریضوں ک لئے علیحدہ آئسولیشن وارڈز یا کمرے مختص کرنے کو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ادھورا ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ مریض کو صحت مند افراد سے علیحدہ کرنے کے بعد اگر اسے ویکسین فراہم نہیں کی جائے گی تو مرض کے خاتمے کی کوششیں کیسے کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہیں، اس لئے جس قدر جلد ممکن ہو منکی پاکس کی ویکسین کی فراہمی یقینی بنا کرتمام ہسپتالوں میں وافر تعداد میں اس کی فراہمی کو یقینی بنا یا جانا ضروری ہے تاکہ مرض کے پھیلنے کے امکانات کو اگر ختم نہیں تو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاسکے۔