پارلیمان سے خطاب میں وزیراعظم کی جھنجھلاہٹ
شیئر کریں
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اپنی کلیدی تقریر چیئرمین پی ٹی آئی پر شدید تنقید کرتے ہوئے پوری کی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عمران خان کو مختلف عدالتوں سے دی جانے والی ضمانتوں کے فیصلوں پر بھی شدید تحفظات بلکہ اعتراضات کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ عمران خاں دہشت گردوں کو اپنی شیلڈ بنارہا ہے،لیکن ان کو دن رات ریلیف مل رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، ایسا کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ خود ان کے بھائی آج عدالت کے فیصلے کے تحت ہی جیل سے نکل کر برطانیہ کی خنک ہواؤں میں کافی کی چسکیاں لے رہے ہیں۔اگر عدالت ان کو ریلیف نہ دیتی تو شاید ان کو جیل سے باہر آکر سانس لینا بھی میسر نہ آتا۔وہ یہ بھی بھول گئے کہ یہ عدالت کی کرم نوازی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو عدالت کے سامنے واپس پیش کرنے کے ضمانت دار ہیں اور اگر عدالت چاہے تو نواز شریف کو واپس نہ لانے پر ان کو جیل میں ڈال سکتی ہے،شہباز شریف شایداس بات کو بھی نظر انداز کررہے ہیں کہ اگر عدالت ساتھ نہ دیتی اور بروقت اقدامات نہ کرتی تو آج شاید 13 جماعتوں کی ان کی حکومت ہی وجود میں نہ آسکتی۔اب سپریم کورٹ کے ایک ازخود نوٹس پر وہ اتنے برہم ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات پر ہی قدغن لگانے پر تلے ہوئے ہیں،لیکن وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اگر وہ چیف جسٹس کے اختیارات میں کٹوتی کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کردہ بل منظور کرانے میں کامیاب بھی ہوگئے تو کل جب وہ حزب اختلاف میں ہوں گے تو از خود نوٹس پر قدغن لگانے کی اپنی ہی کوشش پر پشیمان ہوں گے اور اس کا فائدہ ان کے مخالفین اٹھائیں گے۔
عام طورپر یہ خیال کیا جارہاتھا کہ ملک اس وقت جس خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے وزیراعظم پارلیمان میں اپوزیشن کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افہام و تفہیم کی بات کریں گے اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے اپوزیشن کو مل بیٹھ کر کام کرنے کی دعوت دیں گے،لیکن وزیر اعظم کی پارلیمان میں دھواں دار تقریر میں افہام وتفہیم کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا بلکہ اس سے واضح ہوتاتھا کہ وہ اپوزیشن کو کچا چبالینا چاہتے ہیں اور عمران خاں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کی ان کی خواہش پوری نہ ہونے پر وہ شدید جنجھلائے ہوئے ہیں اور بقول اپنے وزیر داخلہ اب وہ عمران نہیں یا میں نہیں کہ مرحلے پر آچکے ہیں۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی سیاست ایک مشکل اور سنگین نوعیت کے بحران میں کھڑی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج ہماری داخلی، علاقائی اور خارجی سطح کی صورتحال نے ہمیں کافی تنہا کردیا ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے کے لیے اپنی تمام شرائط کی تکمیل کے باوجود پاکستان کے دوست ممالک کی ضمانت مانگ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب ہی اس تنہائی سے نکلنا چاہتے ہیں اور تمام دردمند پاکستانیوں کی کوشش ہے کہ کسی ایسے راستے کی تلاش کو ممکن بنایا جائے جو ہمیں محفوظ راستہ کی طرف لے جاسکے۔ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف یا ریاستی سطح کے تمام ادارے ”ردعمل کی سیاست“ کا شکار ہوگئے ہیں اور یہ کیفیت مفاہمت کے بجائے ”ردعمل یا بدلہ لینے کی سیاست“ کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے۔مفاہمت کے امکانات وہیں پیدا ہوتے ہیں جہاں فریق ایک دوسرے کے سیاسی قد کاٹھ یا سیاسی وجود کو قبول کرتے ہیں لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ صدر مملکت کو اپنے دائرے میں رہنے کی تنبیہ کرتا ہے اور وزیر اعظم صدر مملکت کے خط کو اپوزیشن کی پریس ریلیز قرار دیتے ہیں۔سیاسی معاملات میں مختلف نقطہ نظر کا ہونا یا تنقید کے پہلو کا موجود ہونا سیاسی و جمہوری روایات کا حصہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر سیاسی تنقید یا مختلف نقطہ نظر سیاسی دشمنی یا عدم قبولیت میں تبدیلی کی شکل اختیار کرلیں تو مفاہمت کا پہلو پیچھے رہ جاتاہے۔مفاہمت کے لیے تمام فریقوں کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے کیونکہ سیاسی سازگار ماحول ہی ایک دوسرے کے لیے سیاسی جگہ یا قبولیت کو فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے۔لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ ہم محض سیاسی جنگ نہیں جیتنا چاہتے بلکہ اپنے سیاسی مخالف کے وجود کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بقول اب ہم رہیں گے یا عمران خان رہیں گے اور ہمیں عمران خان کو ختم کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کرنا ہے جو جائز ہو یا ناجائز یا جمہوری ہو یا غیر جمہوری ہم گریز نہیں کریں گے۔کچھ اسی طرح کی شدت پسندی ہمیں وزیر اعظم شہباز شریف کے گزشتہ روز پارلیمان سے خطاب میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایک طرف سیاسی محاذ پر سیاسی قیادتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنائے ہوئی ہیں تو دوسری طرف ہمیں سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان بھی ٹکراؤ کا ماحول غالب نظر آتا ہے۔انتخابات کے تناظر میں ایک بڑا بحران سر پر کھڑا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود حکمران اتحاد دو صوبوں کی سطح پر انتخابات سے واضح انکاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کو ملتوی کردیا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کی جیب میں ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا ردعمل دیتی ہے۔فیصلہ کچھ بھی ہو کیا اس سے سیاسی استحکام ممکن ہوسکے گا، یہ بجائے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جو سیاسی فیصلے سیاسی قیادتوں کو سیاسی فورمز پر کرنے تھے وہ اہل سیاست اپنی نااہلی کی وجہ سے عدالتوں میں لے آئے ہیں۔ عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلہ چاہتے ہیں اور اگر فیصلے حق میں نہیں آتے تو پھر عدالتوں پر تنقید میں شدت پیدا کرکے ماحول کو اور زیادہ خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پچھلے دنوں سابق وزیر خارجہ اور بین الاقوامی امور کے ماہر دانشور اور سیاست دان خورشید قصوری کی سربراہی میں ”پاکستان فورم“ کا موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر اہم اجلاس منعقد ہوا۔موضوع تھا ”پاکستان کی داخلی سیاست اور اس حالیہ بحران سے باہر نکلنے کا راستہ“ کیا ہونا چاہیے۔میاں خورشید قصوری کے بقول اگر اس وقت ہماری سیاسی قیادت نے مفاہمت کا کوئی راستہ نہ نکالا تو اس کے نتیجے میں ایک بڑا سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوگا جو کسی سے نہیں سنبھل سکے گا۔فورم کے بقول بنیادی نکتہ کیسے سیاسی قیادت کو بٹھایا جائے کیونکہ اس وقت دونوں اطراف میں موجود سیاسی بداعتمادی و ٹکراو کا ماحول سیاسی مفاہمت میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف سمیت پی ڈی ایم کے رہنما ؤں کی جانب سے ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ عمران خان مفاہمت نہیں چاہتے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ملک میں حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ مفاہمت ہو۔کیونکہ مفاہمت جو بھی ہوگی اس کا ایک عملی نتیجہ انتخابات کا ہونا ہے۔حکومت اپنی مرضی و منشا و وقت کے مطابق انتخاب کا انعقاد چاہتی ہے جب کہ عمران خان فوری انتخابات کے حامی ہیں۔ایسی صورت میں مفاہمت کے جذبے کے تحت جو بھی راستہ نکلتا ہے وہ آئین کا ہی راستہ ہے اور اس سے انحراف نئی انارکی سمیت جمہوری عمل کو کمزور کرنے یا اس میں تعطل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔اس لیے جو بھی حالات ہیں اور جیسے بھی حالات ہیں تمام سیاسی قوتوں خاص طورپر حکمران اتحاد کو معاملات کو بند دروازے کی طرف دھکیلنے کے بجائے مفاہمت پر ہی زور دینا چاہئے اوراس کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہی بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔ ملک میں سیاسی تقسیم میں جوشدت پیدا ہوئی ہے اس کو کم کرنا بھی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔یہ عمل صرف اور صرف بات چیت، مکالمے اور مفاہمت کے ساتھ ہی ہوسکے گا۔کیونکہ اس سے انحراف کی پالیسی نے سیاست، جمہوریت، معیشت اور سیکورٹی کے عمل کو کمزور کردیا ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین کو سب سے پہلے ”اعتماد کی بحالی پر مبنی اقدامات“ کو بنیادی نکتہ بنانا ہوگا۔اس کی ایک شرط یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوری طور پر جو مقدمات سیاسی کارکنوں کے خلاف بن رہے ہیں یا سیاسی قیادتوں پر دہشت گردی کے مقدمات کو طاقت دی جارہی ہے۔اس کو ختم کیا جائے۔ بدقسمتی سے یہاں اب ”دہشت گردی پرمبنی مقدمات کو بطور ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے جو بلاوجہ حالات میں کشیدگی پیدا کررہا ہے۔یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ ایک طرف مفاہمت کی بات کی جائے اور دوسری طرف سیاسی مخالفین پر شدت کے ساتھ دہشت گردی یا ریاستی بغاوت پر مبنی مقدمات بنائے جائیں اور ان بے بنیاد مقدمات پر عدالتوں کی جانب سے ضمانتیں منظور کیے جانے پر عدالتوں کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے اور اعلیٰ عدلیہ کو تقسیم کرنے اور ججوں کے مابین دراڑیں ڈالنے کی کوشش جائے اس طرح تو معاملات میں بہتری نہیں اور کشیدگی پیدا ہوگی۔بنیادی بات انتخابات سے انحراف یا اس میں تاخیری حربے کی ہے اس سے جتنی دور بھاگا جائے گا ہمارے مسائل اور زیادہ بڑھ جائیں گے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ انتخابات سے پہلے سیاسی کشیدگی کا خاتمہ کیا جائے اوراعتماد پر مبنی ماحول پیدا کرنے کی ذمے داری سب سے زیادہ حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ صرف حکومت اور اپوزیشن کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس کیلئے سول سوسائٹی، وکلا تنظیمیں، میڈیا سمیت اہل دانش یا علمی و فکری انفرادی یا ادارہ جاتی سطح کے لوگوں سمیت سب کو اجتماعی طور پر اس بحث کو آگے بڑھانا ہے۔سب کو مل کر سیاسی قیادتوں پر دباؤڈالنا ہوگا کہ وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کریں اور ملک کو ایسی جگہ پر نہ لے کر جائیں جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہوسکے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس میں کون پہل کرتا ہے اور کون بلی کے گلے میں گھنٹی باندھتا ہے کیونکہ یہ ہی قومی مفاد کا تقاضا ہے۔
٭٭٭