گوادر فری زون میں چینی کرنسی کے استعمال سے انکار کا اصولی فیصلہ
شیئر کریں
وزارت مالیات اور اسٹیٹ بینک پاکستان نے اسلام آباد میں سی پیک کی ساتویں مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس میں گوادر فری زون میں چینی کرنسی استعمال کرنے سے متعلق چین کا مطالبہ مسترد کردیا۔چین نے گوادر میں یوان کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیاتھاکہ چینی کرنسی کے استعمال سے ایکسچینج سے جڑے خطرات سے بچاجاسکتا ہے۔ لیکن پاکستان نے چینی حکام سے ملاقات میں چین کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان کی اقتصادی اقدار کی خلاف ورزی ہوگی۔اجلاس میں چینی حکام نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان سی پیک کے راستے پر کسٹمز نگرانی کے علاقے قائم کرے جسے پاکستان نے تسلیم کرلیا اس حوالے سے حتمی مسودے پر دستخط جلد ہونے کی توقع ہے۔
گوادر بلوچستان کا شہر اور پاکستان کی ایک اہم بندرگاہ تو ہے ہی لیکن اس کی بین الاقوامی اہمیت بھی کچھ کم نہیں بلکہ بہت زیادہ یوں ہے کہ ایک تو یہ تین اہم خطوں یعنی وسط ایشیا، مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اورساتھ ہی دنیا کے دو تہائی تیل کے علاقے سے بھی قریب ترین ہے۔ ایشیا میں اس طرح کی بندرگاہ اس لیے بھی اہم ہو جاتی ہے کہ بہت بڑا براعظم ہونے کی وجہ سے اس میںایسے ممالک کی بڑی تعداد موجود ہے جن کے پاس اپنی کوئی بندرگاہ نہیں ہے یعنی ان کاکوئی حصہ سمندر سے نہیں ملتا جس کی وجہ سے انھیں لینڈ لاکڈ ممالک کہاجاتاہے۔کیسپین کے ارد گرد واقع ریاستیں بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ خود چین کے شہر کا شغر کا فاصلہ شنگھائی کی بندرگاہ سے 4500 کلومیٹر ہے لیکن یہی فاصلہ گوادر سے 2800 کلومیٹر ہے جو اس بندرگاہ کو مزید اہم بنا دیتی ہے۔ اس طرح یہ بندرگاہ ان علاقوں اور ملکوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی اہل ہے۔ گہرے پانی کی اس بندرگاہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہی پاکستان نے اسے تعمیر کرنے اور اسے ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ اس کی نشاندہی 1954 میں ہی ہو گئی تھی اور جب1958میں پاکستان نے اسے مسقط سے خریدا تب سے ہی یہاں مچھلی بندر اور چھوٹی بندر گاہ کام کر رہی تھیں تاہم اس پر باقاعدہ وسیع پیمانے پر کام2007میں شروع ہوا۔یہ بندر گاہ 2012تک پورٹ آف سنگاپورکے پاس رہی تاہم اس کی غیر تسلی بخش کار کر دگی کے باعث اسے اس کمپنی سے لے کر2013 میں چین کی اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کو دے دیا گیا جس نے کام کی رفتار کو تیز کیا۔ جب سے یہ عمل شروع ہوا اس بندرگاہ کی تجارتی اور دفاعی دونوں لحاظ سے اہمیت کے پیش نظربھارت بھی انتہائی متحرک ہوگیا۔
اس کی تجارتی اہمیت کم کرنے کے لیے ہی بھارت نے اس کے مقابلے میں ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کوتعمیر کرنے اور اسے ترقی دینے کی مہم کا آغاز کیا۔ یہ ایک چھوٹی سی غیر اہم بندرگاہ تھی لیکن گوادر پر کام شروع ہونے کے بعد بھارت نے ایران کو اس کی تعمیر کے لیے 85 ملین ڈالر کی مدد دینے کا اعلان کیا۔ چاہ بہار سے افغانستان تک سڑکیں بنوائیں جن میں 217 کلو میٹرلمبی زرنج دلارام روڈ بھی شامل ہے۔ گوادر کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کی سیکورٹی خاص توجہ کی طالب ہے اس بندرگاہ میں کئی خلیجیں اور جزائر موجود ہیں جن میں سے ہر ایک کی سیکورٹی انتہائی اہم ہے۔ اگر چہ پاک بحریہ پاکستان کی بحری سرحدوں پر انتہائی مستعدی سے اپنے فرائض انجام دیتی ہے اور گوادر پر بھی یہ اسی طرح چوکس ہے تاہم اس سیکورٹی کومزید سخت بنانے کے لیے مسلسل کوشش جاری ہے۔ پی این ایس اکرم 1983سے گوادر میں اس ساحل کی حفاظت کے لیے موجود ہے جس پرریڈار بھی ہے اور پٹرولنگ کرنے والی کشتیاں بھی تیار رہتی ہیں لیکن سی پیک کا اعلان ہونے کے بعد گوادر کی اہمیت بڑھ جانے کی وجہ سے ظاہر ہے دشمن کے ناپاک ارادوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ ہر طریقے سے اس بندرگاہ کو ناکام کرنے کے لیے سرگرم ہے لہٰذا پاکستان نیوی نے بھی اپنی نفری اور انتظامات کا پھیلائو بڑھا دیا ہے۔سی پیک کا منصوبہ پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے میں مدد گار ثابت ہو گااور یہی بھار ت کے لیے باعث تشویش ہے،کیونکہ بھارت کوخدشہ ہے کہ وہ بحیرئہ عرب اور بحر ہند میں برتری کا جو خواب دیکھ رہا تھا گوادر کی موجودگی میں وہ شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
سی پیک کا منصوبہ شروع ہونے کے بعد ان سمندری حدود میں بھار تی سرگرمیاں بھی رپورٹ کی گئیںاور ایسی ہی سازشوں کے توڑ کے لیے پاک بحریہ کو وسیع حفاظتی انتظامات کر نا پڑے۔ گوادر اگرچہ ایک خالصتاََتجارتی بندر گاہ ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر پاک بحریہ یہ تمام اقدامات اٹھارہی ہے۔نیوی کے افسر اور سیلرز فی الوقت اس غیر آباد،غیر ترقی یافتہ بلکہ ترقی سے دور علاقے میں تمام شہری سہولتوں سے دور رہ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، اسی سلسلے میں ایک نیول بیس بھی بن رہاہے جسے پاک بحریہ اور پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کی وہ یونٹیں استعمال کریں گی جو گوادر کی حفاظت کے لیے یہاں اپنے فرائض انجام دیں گی کسی بیرونی بحریہ کو یہ بیس استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تاہم کسی بھی ملک کے بحری جہازوں کو یہاں آنے کی اجازت ہوگی یوں نہ صرف ان تمام حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری پاک بحریہ پر ہو گی بلکہ ان کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھ میں رہے گا۔گوادر کی اہمیت اس وقت بین الاقوامی طور پر بھی بہت زیادہ ہے امریکہ کو اس پر اس لیے تشویش ہے کہ چین کے” اسٹرنگ آف پرل” سلسلے کی اس کڑی کے ذریعے اس کی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ مختصرترین راستے سے چین تک پہنچے گا اور بھارت کو اس لیے فکرہے کہ یہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کی تعمیر کے بعدکراچی کی بندرگاہ پر بوجھ بھی کم ہو گا اوروسط ایشیائی ممالک بھی اس بندرگاہ سے اپنی سمندری تجارت میں اضافہ کر سکیں گے جو پاکستان کے لیے زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک بہترذریعہ ہوگا۔اگرچہ یہ ایک تجارتی بندرگاہ ہے لیکن دفاعی لحاظ سے اس کی اہمیت اپنی جگہ پر موجود ہے۔ جنگ کے حالات میں اگر بفرض محال بھارت کراچی کی بندرگاہ پر نا خوشگوار صورت حال پیدا کرتا ہے یا اس کو بلاک کرتا ہے تو گوادر کی بندرگاہ اس کی پہنچ سے بہت دور ہے اوراس صورت میں پاکستان اپنی سمندری حدود کی بہتر طور پر حفاظت کر سکتا ہے۔یوں اس بندرگاہ پر بحری افواج کی موجودگی نہ صرف بہتر بلکہ ضروری ہے تاکہ ایک طرف تجارتی مفادات کا تحفظ ہو سکے اور دوسری طرف ملک کا سمندری دفاع بھی مضبوط ہو اور ساتھ ہی بحیرئہ عرب میں دشمن کی نقل و حرکت پر بھی مسلسل نظر رکھ کر انہیں محدود بھی کیا جا سکے۔
گوادر کی اسی اہمیت کے پیش نظر پاکستان کی منصوبہ سازی میں بھی اس کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور پاکستان اس علاقے میں کسی بھی ملک کو خواہ وہ چین جیسا پاکستان کا قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو کوئی خصوصی رعایت دے کر علاقے کو متنازعہ بنانا نہیں چاہتاا ور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے گوادر فری زون میں چینی کرنسی استعمال کرنے سے متعلق چین کا مطالبہ مسترد کردیاہے، پاکستان نے گوادر فری زون میں چینی کرنسی یوان کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کرکے ایک دفعہ پھر پوری دنیاپر یہ ثابت کردیاہے کہ پاکستان ایک مکمل طورپر غیر جانبدار اور خود مختار ملک ہے اور وہ کسی بھی ملک کی خوشنودی حاصل کرنے یا کوئی غیر معمولی رعایت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی ملک کو ایسی کوئی سہولت یارعایت دینے کوتیار نہیں ہے جس سے اس کی خودمختاری اور سے پاکستان کی اقتصادی اقدار کی خلاف ورزی کا تاثر ملتا ہو۔ امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے اپنے اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہیں گے،اور کسی بھی صورت کسی بھی ملک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خواہ وہ پاکستان کتنا ہی سچا دوست اور ہمدرد کیوں نہ ہو ان اصولوں کو نہیں چھوڑیں گے۔