ملک دشمنوں کاخاتمہ کرنے کاعزم
شیئر کریں
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان اور فوج کو گالیاں دینے والے جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ سمندر پار بیٹھے لوگ ملک اور فوج کو گالیاں دیتے ہیں ، ہم ہر اندرونی اور بیرونی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز مری کے علاقے گہل میں شہید لیفٹیننٹ ارسلان عالم کے گھر جا کر شہیدکے والدین سے تعزیت کی اور مرحوم کے جذبہ شہادت کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔اس موقع پر اْنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرکے رہیں گے اور یہ کہ فوج تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے قوم کے ساتھ کھڑی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ سمندر پار بیٹھ کر پاکستان توڑنے کی بات کرنے اور فوج کو گالیاں دینے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اْنہوں نے یقین دلایا کہ یہ لوگ عنقریب قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ عوام کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم ہر اندرونی و بیرونی سازش کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔
سمندر پار بیٹھ کر فوج اور ملک کو گالیاں دینے والوں کو گرفت میں لانے کے حوالے سے پاک فوج کے سربراہ کے اس بیان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ پاک فوج کے سربراہ اپنے اردگرد کی صورت حال اور ملک اور بیرون ملک بیٹھے عناصر کی ملک اور فوج دشمن سرگرمیوں سے بھی لاتعلق نہیں ہیں ،پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان انتہائی اہمیت کاحامل ہے اور اس پر فوری عملدرآمد کیا جانا ضروری ہے کیونکہ بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف زہر اگلنے والوں کو جتنی زیادہ چھوٹ دی جائے گی ملک وقوم کو اتنی ہی زیادہ نقصان ہوگا۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے اورا س میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ جس قوم کی فوج میں شہید لیفٹیننٹ ارسلان عالم جیسے محب وطن اور جذبہ شہادت سے سرشار لوگ ہوں اْس ملک کی سالمیت اور استحکام کو کوئی وطن دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
جہاںتک ملک سے باہر بیٹھ کرپاکستان اورپاک فوج اور بانیان پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا تعلق ہے تو اس ضمن میںسیاسی جماعتوں خاص طورپر حکمراں جماعت اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار نہیں دی جاسکتی یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر سیاسی حکومتیں مصلحتوں کا شکار نہ ہوتیں اور انہیں شروع دن سے ہی نکیل ڈالی گئی ہوتی تو انکے حوصلے کبھی بلند نہ ہوتے۔ یہ ساری خرابیاں سیاسی مفادات کے باعث پیدا ہوئیں۔ ایسے لوگ، قیام پاکستان کے فوراً بعد وطن دشمن سازشوں میں مشغول ہوگئے تھے۔ وطن کے غداروں اور سازشیوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان سب کو کابل کے حکمرانوں اور بھارت کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ آزاد بلوچستان اور الطاف حسین، کراچی پر مشتمل سندھ کے ایک حصے کو جناح پور بنانے کے درپے تھے اور ہیں۔آرمی چیف کا یہ عزم ہر محب وطن کے دل کی آواز ہے۔ ان سب وطن دشمنوں کو جو ملک سے باہر بیٹھ کر ملک کی سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور جس کا کھا رہے ہیں اسی کی جھولی میں چھید کررہے ہیں‘ جیسے بھی ہو، ملک واپس لاکر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ انکے علاوہ کچھ توا علانیہ وطن دشمن ہیں اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ’’دانشوری اور آزاد خیالی‘‘ کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ وہ ا علانیہ نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ انکی خبر لینے کی بھی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاک فوج نے اب اْس فریضہ کو انجام دینے کا عزم مصمم کیا ہے‘ جوبہت پہلے انجام پا جانا چاہیے تھا۔ پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے بلا امتیاز ایسے تمام افراد کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے جو بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف مہم چلاتے ہیں ، تقریریں کرتے ہیں اور بیانات دیتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ان لوگوں کے بیانات اور خبروں وغیرہ پر تو پابندی لگادی گئی ہے لیکن ان کی گرفتاری کے لیے جو قانونی کارروائیاں ہونی چاہیے تھیں وہ نہیں ہو رہیں اور جس طرح انہیں گرفت میں لیا جانا چاہیے تھا یہ کام نہیں ہو رہا۔اگرچہ اس حوالے سے خبر میں کسی کانام نہیں لیا گیا ہے لیکن پاکستان توڑنے کی باتیں کرنے والوںمیں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کا نام سرفہرست رہا ہے اور فوج اور جرنیلوں کے خلاف غیر مہذب گفتگو کرنے میں بھی ان ہی کا نام سرفہرست ہے۔ جبکہ تازہ ترین حالات کی روشنی میں بلوچستان کے حوالے سے بھی کچھ لیڈروں کا نام آسکتا ہے۔ تاہم کوئی بھی فرد ہو پاکستان کے بارے میں ایسے خیالات کے اظہار پر اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ آرمی چیف سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ لندن میں بیٹھ کر الطاف حسین نے آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف، ڈی جی رینجرز اور دیگر افسران کے بارے میں نہایت گھٹیا زبان استعمال کی تھی۔ لیکن اس کی تقریریں بند کرنے سے بڑھ کر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔سابق حکمران میاں نواز شریف تو اس حوالے سے زبان ہی بند رکھتے تھے۔آزادی اظہار رائے اپنی جگہ لیکن ریاست کا وقار اور احترام لازم ہے،امریکہ میں بھی ریاست کے خلاف بات نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تو آئین ، فوج، پاکستان کسی کو نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ کھلے عام را سے مدد مانگی جاتی تھی اور اس پر تالیاں بجانے والے حیرت انگیز طور پر آج بھی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہیں۔ اگر بیرون ملک بیٹھ کر ملک توڑنے کی باتیں کرنے اور فوج کو گالیاں دینے والے کو جلد گرفتار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے تو جو لوگ ابھی گرفت میں آسکتے ہیں پہلے ان کے خلاف کارروائی کی جائے جو ان باتوں پر واہ واہ کیا کرتے تھے اور ان کی تائید کرتے تھے وہ لوگ اسمبلیوں میں وی آئی پی بنے بیٹھے ہیںان کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہئے صرف اپنی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بچانے کے لیے اپنے قائد سے برات کے اظہار کے بعد کسی کو کلین چٹ نہیں دی جانی چاہئے کیونکہ ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جو لندن کے ایک اشارے پر درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتروانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور لندن کے اشارے پر قتل وغارت گری کرنے بھتے نہ ملنے کی صورت میں درجنوں جیتے جاگتے انسانوں سمیت کارخانوں کو نذر آتش کرنے والوں کو پناہ دینے اور ہر طرح کی امداد ان ہی لوگوں نے فراہم کی تھی اس لیے ان کو اس طرح چھوڑدینا کسی طوربھی قرین از انصاف نہیں ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ارباب اختیار خاص طورپر آرمی چیف اس جانب بھی توجہ دیں گے او ر محض ٹھکانے بدل لینے پر کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ جاری کرنے اور اس کے سابقہ تمام گھنائونے جرائم کو نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے۔