نئے سال کابجٹ ،وزیر خزانہ نے غریبوں کو نظر انداز کردیا
شیئر کریں
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روزمالی سال 18-2017ءکا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کا اعلان کیا ہے جب کہ بجٹ میں دفاع کے لیے 920 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ رواں سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.3 فیصد ہے جب کہ ملک میں اس وقت ترقی کی بلند ترین شرح ہے، مالیاتی خسارہ آدھا رہ گیا ہے ، لوڈ شیڈنگ میں واضح کمی آئی ہے جو2018 ءتک مکمل ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی میں ہر لحاظ سے بہتری آئی ہے اور پاکستان کی معیشت کا حجم 300 ارب امریکی ڈالر سے بڑھ گیا ہے جب کہ عالمی برادری کا ہم پر معاشی اعتبار بھی مضبوط ہوا ہے۔
اسحاق ڈار نے بتایاہے کہ وفاقی حکومت کے ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ کیا گیا اور سی پیک منصوبوں کے لیے 180 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے جب کہ بیت المال کا بجٹ 4 سے بڑھا کر 6 ارب روپے کرنے اور انفرااسٹرکچر کے لیے پی ایس ڈی پی کا 67 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کے لیے قرضوں کا حجم ایک ہزار ایک ارب روپے کیاجا رہا ہے اور فی کسان 50ہزار روپے تک قرضہ دیا جائے گا جب کہ توانائی کے شعبوں کے لیے 401 ارب، صحت کے لیے 49 ارب روپے اور نیشنل ہیلتھ پروگرام کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزارایک ارب روپے رکھا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ رواں مالی سال میں 700ارب روپے کے زرعی قرضے دیے گئے، اوور سیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 40 فیصد اضافہ ہوا ،انہوں نے ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر کے اخراجات میں حال ہی میں کیے گئے بھاری اضافے کے باوجود یہ دعویٰ کیا کہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی گئی جب کہ پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 21ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، پاکستان میں فی کس آمدنی 1631 ڈالر رہی، پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 97ارب روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور پاکستان کونمایاں اصلاحات کرنےوالے 10 ممالک میں شامل کیا گیا جب کہ یکم جون سے پاکستان ایمرجنگ مارکیٹ بن جائے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 18-2017 ءمیں جی ڈی پی کی شرح میں 6 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے اور بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.1 فیصد ہے، سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک الاو¿نس اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ کم سے کم اجرت 14 سے بڑھا کر 15 ہزار روپے کردی گئی ہے۔ ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ میں 14 فیصد اضافہ جب کہ پی ایس ڈی پی کے لیے ایک ہزار ایک ارب مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 121ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جس سے 68 لاکھ مستحق افراد مستفیض ہوں گے، بجٹ میں لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 20ارب روپے، بجلی پر سبسڈی کے لیے 118ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 920 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ مسلح افواج کے ملازمین کی تنخواہوں میں مجموعی طور پر 20 فیصد اضافہ کیا گیا، 10 فیصد اضافہ تنخواہ اور 10 فیصد الاو¿نس کی مد میں دیا گیا، شہدا، جنگ میں زخمیوں کے لواحقین کے لیے امدادی پیکچ پر ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی بجٹ میں ریلوے کے لیے 42.9 ارب روپے مختص کرنے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جب کہ کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس 6 فیصد کرنے، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرنے کی تجویز ہے تاہم موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے جب کہ موبائل فون کارڈ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 15 سے کم کرکے 12.5 فیصد رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پان چھالیہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح 10 سے 25 فیصد کرنے، الیکٹرک، سگریٹ پر 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے جب کہ وزیراعظم کی صوابدیدی گرانٹ کے لیے 30 لاکھ روپے مختص اور صاف پانی کے منصوبوں کے لیے 38ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ ٹیکس وصولیوں کی مد میں 4330.5 ارب ، دیگر ٹیکسوں کی مد میں 317.5 ارب ، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4013 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، ٹیکس اور شرح نمو کے درمیان 15 فیصد تناسب حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں نان فائلرز کے لیے مختلف مد میں ٹیکس کی شرحیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کو اپیل کا حق دینے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ اسٹاک ایکسچینج میں شامل کمپنیوں کوٹیکس کریڈٹ کی چھوٹ میں کمی، ڈیویڈنٹ پرانکم ٹیکس شرح 12.5 فیصد سے بڑھا کر15 فیصد کرنے کی تجویز شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 850 سی سی گاڑیوں کی رجسٹریشن پرودہولڈنگ ٹیکس 10ہزارسے کم کرکے 7500روپے اور 1300 سی سی گاڑیوں پرٹیکس 30 ہزارسے کم کرکے 25 ہزارروپے کرنے کی تجویز شامل ہے لیکن گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کا اطلاق ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اگلے مالی سال کے بجٹ کے لیے جن تجاویز کااعلان کیاہے ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا، ایک ایسی حکومت کے لیے جو چہار جانب مشکلات میں گھری ہوئی ہو اور جس کے بارے میں یہ پیشگوئی کرنا بھی مشکل ہو کہ وہ رواں سال بھی پورا کرسکے گی یا نہیں اس سے زیادہ سخت بجٹ پیش کرنے کی توقع بھی نہیں کی جارہی تھی ، تاہم وزیر خزانہ خود چونکہ غربت سے ناآشنا ہیں اس لیے انہوں نے عام کاشتکار اور زمینوں پر اجرت پر کام کرنے والے ہاریوں اور کمیوں، چھوٹے کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں ،برسہابرس سے ایک ہی ادارے میں خون پسینہ ایک کرنے کے باجوود کنٹریکٹ ،ایڈہاک اور یومیہ اجرت کے ملازم کہلانے والے غریب محنت کشوں کو اس بجٹ میں کوئی ریلیف فراہم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ انہوں نے اس بجٹ میں اولڈ ایج بینی فٹ کے تحت پنشن حاصل کرنے والے لاکھوں معمر افراد کی حالت زار پر بھی کوئی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں اور ان کی کم از کم پنشن میں کوئی اضافہ کرنے کااعلان نہ کرکے ان کی امیدوں کومایوسیوں میں تبدیل کردیا۔ عام طور پر یہ امید کی جارہی تھی کہ وزیر خزانہ کم از کم نجی اداروں کے کنٹریکٹ ملازمین اور اولڈ ایج بینی فٹ کے تحت صرف 5ہزار250 روپے ماہانہ پنشن پر گزارا کرنے والوں کی کم از کم پنشن محنت کشوں کی کم از کم اجرت کے مساوی کرنے کااعلان کرکے لاکھوں گھرانوں کی دعائیں لیں گے اور یہ معمر افراد اگلے الیکشن میں ان کے وکیل بن کر کھڑے ہوسکیں گے۔جہاں تک ای اوبی آئی کے پنشنر ز کا معاملہ ہے تو وزیر خزانہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس ادارے کے پاس نہ صرف یہ کہ وافر فنڈز موجود ہیں بلکہ اس میں مسلسل اضافے کے ذرائع موجود ہیں، صرف ان کوفعال بناکر وصولی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔اس طرح ان پنشنرز کی پنشن میں اضافے کی صورت میں سرکاری خزانے کو کسی طرح کا بوجھ بھی نہیں اٹھانا پڑتا ۔ امید کی جاتی ہے کہ وزیر خزانہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران اس پر غور کریں گے اور ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کرکے لاکھوں دکھی دلوں کی دعائیں لینے کی کوشش کریں گے۔