مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی ذمہ داری بلیک واٹر کو دینے کے منصوبے کاانکشاف
شیئر کریں
اقوام ِ متحدہ کی نمائندہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ کو اطلاع دی ہے کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انسا نی حقوق کی بدترین پامالی کا ایک نیا خوفناک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میںآزادی کی جدوجہد کرنے والوں پر کنٹرول کرنے کی ذمہ داری امریکا کی بلیک واٹر یا اسی طرز کی کسی تنظیم کے سپرد کردی جائے گی اور اس تنظیم کو صورت حال پر کنٹرول کرنے کے لیے کوئی بھی حربہ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے گی ،حقوق انسانی کی عالمی تنظیم نے اقوام متحدہ کو بھارت کے اس مذموم منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے اقوام ِ متحدہ سے فوری طور پر نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ایک اور اطلاع کے مطابق بھارت نے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے بھارت کی حمایت میں دیے گئے حالیہ بیان سے شہہ پاکر وادی میں انٹرنیٹ سروس کے علاوہ ٹیلیفونک نظام بھی بندکردیا ہے۔ایمنسٹی ہی کے مطابق وادی کو قتل گاہ میں تبدیل کرنے کے لیے امریکی بدنام زمانہ’ ’بلیک واٹر ‘‘کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔حریت رہنمائوں پر سخت پہرے لگانے کے علاوہ سکولوں اور کالجوں میں کشمیریوں کو روکنے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔گزشتہ دنوں امریکا نے حزب المجاہدین کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر بھارت کے موقف کی تائید کر دی تھی۔ بھارت مقبوضہ وادی میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی ہر تنظیم اور شخص کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ حزب المجاہدین بھی کشمیریوں کی آزادی کے لیے سرگرم تنظیم ہے۔ بھارت تو پہلے ہی کشمیریوں کو کچل رہا ہے اب امریکا کی حمایت سے اس کے ظلم و جبر میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اسی خدشے کے باعث تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی منصوبہ بندی کاپردہ چاک کیا ہے۔ ایمنسٹی نے ہی تین چار سال قبل مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی اجتماعی قبروں کاپتہ چلا یا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے عالمی تنظیموں کے دورہ مقبوضہ کشمیر کو محددو کردیا تھاجبکہ مظفر وانی کی شہادت کے بعد تو ایمنسٹی، او آئی سی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے تنظیموں پر مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جس کا مقصد کشمیریوں پر ایسے مظالم کی پردہ پوشی ہے۔ اب جبکہ بھارت نے مزید بربریت کا بازار گرم کرنے کی سازش تیار کی ہے تو عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا سخت نوٹس لے اقوام متحدہ کو بلا تاخیر اس پر کارروائی کرنی چائیے۔اقوام متحدہ کو نہ صرف بھارت کو انسانی حقوق کی پامالی سے روکنے کے لیے موثر اقدام کرنے چاہئیں بلکہ اپنی ہی قراردادوں پر عمل کر تے ہوئے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے میں بھی اپنا کردار ادا کرناچاہئے تاکہ مظلوم کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادی مل سکے اور وہ خود اپنے مستقبل کافیصلہ کرسکیں۔
جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے توپوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق صرف پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات میں پنہاں ہے ۔جبکہبھارت اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے کر اس مسئلے کو مکمل طور پر نظرانداز کر رہا ہے، جس کی وجہ سے صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے۔ بھارت نے8 لاکھ سے زائد مسلح افواج کشمیر میں تعینات کررکھی ہیں، جنھوں نے معصوم کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔جبکہ پاکستان اس مسئلے کو افہام وتفہیم کے ماحول میں مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی مسلسل کوششیں کرتارہاہے اور کچھ روز قبل بھی پاکستان نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بامقصد مذاکرات کی باضابطہ طور پر دعوت دی تھی۔اس حوالے سے پاکستان کا موقف ہمیشہ یہ رہاہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت کو ایک دوسرے زاویئے سے دیکھنا چاہیے، کیونکہ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات رکھے جو خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے۔بھارتی رہنمائوں کا اپنی پاکستان دشمنی کو بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ پاکستان اور بھارت خطے کے اہم ممالک ہیں اور خوشحالی اسی صورت ممکن ہے جب یہ دونوں ملک آپس میں اپنے اختلافات ختم کریں۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ ماہ 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اس دوران مظاہروں اور احتجاج پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نہتے کشمیری عوام پر فائرنگ سے 70 سے زائد کشمیری ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ بھارتی پولیس کے حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ مختلف علاقوں میں کرفیو اور گھروں سے نکلنے پر پابندی کا مقصد حریت پسند تنظیموں کے احتجاج کو روکنا ہے۔
جبکہ اب بھارتی صحافی اور دانشور بھی بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی کو کھل کر ہدف تنقید بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کا اندازہ گزشتہ دنوںبھارتی صحافی سنتوش بھاٹیہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے 4روزہ دورے کے بعد بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کے نام ایک کھلے خط سے ہوتاہے جو’رائزنگ کشمیر نامی جریدے میں’ میں شائع ہوا ہے ،سنتوش بھاٹیہ نے اپنے اس خط میں لکھاتھا کہ ‘اگرچہ کشمیر کی سرزمین بھارتی حکومت کے قبضے میںہے مگر کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیںہیں’۔اس صحافی نے مقبوضہ کشمیر کے چار روزہ دورے کے حقائق اس خط میں بیان کیے ہیں، جس میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال، کشمیری عوام کا غصہ اور بھارت خصوصاً مودی سرکار کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو غلط طریقے سے سنبھالنا وغیرہ جیسے حقائق کی طرف بھارتی وزیراعظم کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بھارتی صحافی سنتوش بھاٹیہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں یہ حقیقت متعارف کرانا چاہتا ہوں کہ بھارتی نظام کے خلاف لوگوں کے اندر تکلیف دہ جارحیت موجود ہے چاہے وہ 80 سالہ شخص ہو یا 6 سالہ بچہ۔یہ جارحیت اور تلخی نامنظوری کے احساس کے ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان سے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں، ان کے درد اور جارحیت نے اب ایسی انتہاپسندی کا روپ لے لیا ہے کہ اب وہ ہاتھوں میں پتھر لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور اتنے بڑے نظام کا سامنا کرنے کے لییتیار ہیں، کوئی بھی نتیجہ انہیں روک نہیں سکتا۔ ستوش بھاٹیہ نے لکھا ہے کہ میں سمجھتاہوں کہ وہ کشمیری جو ہاتھ میں پتھر نہ اٹھاتا ہو، اپنے دل میں ضرور پتھر رکھتا ہے اور جن لوگوں نے 2014 کے انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے، آج ان میں سے کوئی بھی اسی حکومت کی حمایت میں ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کے لیے بھی تیار نہیںہے۔
ہم سمجھتے ہیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو حقوق انسانی کی عالمی تنظیم کی جانب سے دی گئی اطلاع پر فوری قدم اٹھانا چاہئے اور بھارتی حکومت کو مظلوم کشمیریوں پر مزید ظلم وستم ڈھانے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ورنہ اقوام متحدہ کے وجود کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور اس جیسے ادارے کی افادیت مشکوک ہوکر رہ جائے گی۔
٭٭…٭٭