میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طالبان ترجمان احسا ن اللہ کااعترافی بیان ۔۔۔افغان حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں

طالبان ترجمان احسا ن اللہ کااعترافی بیان ۔۔۔افغان حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۸ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا چونکا دینے والا اعترافی بیان جاری کیا ہے جس میں ایک بار پھر دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے احسان اللہ احسان کا جوویڈیو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں احسان اللہ احسان نے بتایا کہ اس کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے اور اس کا اصل نام لیاقت علی ہے، 2008ءمیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت وہ کالج کا طالب علم تھا۔ احسان اللہ احسان نے مزید بتایا کہ وہ ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی اور ٹی ٹی پی کا مرکزی ترجمان بھی رہا۔احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ طالبان بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور افغان خفیہ ایجنسی ”این ڈی ایس“ سے رابطے میں ہیں جب کہ طالبان کو مغربی ممالک کی جانب سے بھی فنڈنگ ملتی ہے۔ سابق ٹی ٹی پی ترجمان نے بتایا کہ طالبان اسلام کا نعرہ لگاتے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرتے تھے۔ افغان فوج اور این ڈی ایس پاکستان آنے میں مدد فراہم کرتے تھے جب کہ بھارت کی جانب سے بھی مدد فراہم کی جاتی تھی۔ افغان فوج اور این ڈی ایس طالبان رہنماو¿ں کی دستاویزات بنانے میں مدد فراہم کرتے تھے کیونکہ افغانستان میں بغیر دستاویزات کے رہنا بہت مشکل کام ہے۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانستان کی ’این ڈی ایس‘ سے روابط کا انکشاف کیا اور بتایا کہ کالعدم تنظیم اسرائیل سے بھی مدد لینے کے لیے تیارتھی۔
ٹی ٹی پی کو ملنے والی بھارتی معاونت کا بھی اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ ’جب ہم افغانستان پہنچے تو میں نے وہاں دیکھا کہ ٹی ٹی پی کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ساتھ تعلقات بڑھنے لگے ہیں،’ر‘ا نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں مالی معاونت فراہم کی اور ٹی ٹی پی کو اہداف دیے اور پاکستان میں کی جانے والی ہر کارروائی کی قیمت بھی ادا کی‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان میں موجود ان تنظیموں نے مختلف کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے روابط رکھتے ہیں، بھارت نے ان لوگوں کو ’تذکرہ‘ دیا تھا، یہ تذکرہ افغانستان کے قومی شناختی کارڈ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور ان کے بغیر سفر کرنا مشکل ہوتا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’ان لوگوں کی تمام تر نقل و حمل کا علم افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو بھی ہوا کرتا تھا اور این ڈی ایس ہی ٹی ٹی پی کو پاکستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی تھی‘۔
طالبان کی ترجمانی کے فرائض انجام دینے والے احسان اللہ احسان کے اس اعترافی بیان سے پاکستان کے خلاف دشمن کا ایجنڈا اور مذموم عزائم بے نقاب ہوگئے۔ ’احسان اللہ احسان نے دشمن کے ایجنڈے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مذموم عزائم کو بے نقاب کردیا ہے‘۔ اس سے قبل افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں طالبان اورداعش کے مضبوط ٹھکانے پر امریکی نان نیوکلیئر بم حملے میں 15 بھارتی شہریوں کی ہلاکت اوراس انکشاف کے بعد کہ ہلاک ہونے والے بھارتی شہریوں میں سے چند افراد کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ سے تھا وہ کیرالہ کے رہنے والے ہندو تھے ، پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے اور پاکستان کے خلاف سازشوں اور داعش کے کارندوں کو تربیت دینے کے لیے اس مرکز میں آئے تھے، اس سے یہ بھی ثابت ہو گیاتھا کہ”را“ کے ہلکار افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔داعش کے ٹھکانوں سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اہلکاروں کی لاشوں کی برآمدگی اس بات کابین ثبوت تھی کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے،طالبان کے ترجمان احسان اللہ کے اعترافی بیان یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ طالبان ور داعش کے ارکان ”را“ کے اہلکاروں اور افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اورطالبان اور داعش افغانستان میںجو تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں وہ را کے اشارے پر ہی کررہے ہیں ،کیونکہ بھارت کسی طور بھی افغانستان میں امن قائم ہونے نہیں دینا چاہتا کیونکہ افغانستان میںامن قائم ہوجانے سے ان کے لیے افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا ۔
احسان اللہ کے اعترافی بیان سے یہ حقیقت ایک دفعہ پھر ثابت ہوگئی ہے کہ بھارت پاکستان میں خون خرابے کو اپنا مقصد اور مشن سمجھتا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف داعش اور طالبان کو استعمال کر رہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے مفرور مولوی فضل اللہ جیسے دہشتگردوں کی بھی ”را“ اور این ڈی ایس پرورش کرتی رہی ہے۔ افغان انتظامیہ بہت سے معاملات میں بھارت کی محتاج ہے۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا خاندان دہلی میں مقیم ہے۔ بھارت امداد کے نام پر افغان حکمرانوں پر مہربان رہتا ہے۔ ان کے اپنے اہل و عیال اور خاندان محفوظ ہیں، بادی النظر میں انہیں ملکی مفاد اور اپنے شہریوں کی حفاظت سے غرض نہیں ہے۔
افغان انتظامیہ پاکستان پر افغانستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی رہی ہے۔سرحدپار دہشتگردوں کی پناہ گاہوں اور وہاں سے اپنے ملک میں داخل ہونے کا واویلا کیا جاتا ہے۔ پاکستان افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے ناقابل تردید ثبوت امریکہ اور اقوام متحدہ کے سامنے رکھ چکا ہے۔ یہ محض الزامات نہیں ہیں، پاکستان نے سرحد پار دہشتگردی روکنے کے لیے بارڈر مینیجمنٹ شروع کی جس پر افغانستان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، طور خم کی سرحدپر گیٹ کی تعمیر کے دوران گولہ باری کر کے ایک میجر سمیت 18 اہلکاروں، سویلین کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ پاکستان پوری سرحد کو دیوار یا باڑ سے سیل کرنا چاہتا ہے اسے بھی افغان انتظامیہ بھارت کے ایماپر ناقابل برداشت قرار دے رہی ہے۔ پاک افغان سرحد سیل کر دی جاتی ہے تو بھارت کے لیے پاکستان میں کھل کر مداخلت اور دہشتگردی کے راستے بند ہو جائیں گے اورافغان انتظامیہ کے اس الزام کا بھی خاتمہ ہو جائیگا کہ پاکستان سے دہشتگرد افغانستان میں داخل ہوتے ہیں مگر چونکہ ان کی نیت میں فتور ہے اور وہ بھارتی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں اس لیے بارڈر مینیجمنٹ کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں قیام امن کے لیے دونوں ممالک کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔ افغان انتظامیہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی و قومی مفادات کے بارے میں سوچے، ہٹ دھرمی چھوڑ دے، حقائق کا ادراک کرتے ہوئے بھارت کا اپنے ملک سے عمل دخل ختم کر دے تو دونوں برادر اسلامی ملک امن کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
افغان حکمرانوں کے تلخ رویوں کے باوجود پاکستان کا رویہ ہمیشہ مثبت، ہمدردانہ اور معاونت پر مبنی رہا ہے۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کسی بھی ملک سے بڑھ کر تعاون کر سکتا ہے۔ افغان فوج میں دہشتگرد کس طرح آسانی سے شامل ہو جاتے ہیںاس کا اندازہ اس انکشاف سے لگایاجاسکتاہے کہ افغانستان میں فوجی تربیتی مرکز پر حملہ کرنے والے 4 جنگجو ایک ماہ افغام آرمی کور میں موجود رہے۔پاکستان فوجی اور انٹیلی جنس مہارت میں ایک مقام رکھتا ہے۔ افغان اہلکاروں کی تربیت میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ کام بھارت کر رہا ہے تو اس کے اپنے مقاصد بھی اس کے پیش نظر ہوتے ہیں جو افغانستان کے مفادات کی حمایت سے زیادہ مخالفت میں ہیں۔
احسان اللہ کے اس بیان سے اب افغان حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئےں اور انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ جس بھارت کو اپنا ہمدرد اور خیرخواہ سمجھ کر پاکستان کے ساتھ دوری کی پالیسی پر گامزن ہیں ا س کااصل چہرہ کتنا مکروہ ہے اور وہ افغانستان میں بیٹھ کر طالبان اور داعش کو تربیت دے کر خود افغان حکومت کے لیے کس طرح مسائل کھڑے کررہاہے۔امید کی جاتی ہے کہ افغان قائدین حقائق کو سمجھنے اور دوست دشمن میں تمیز کرنے کی کوشش کریںگے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں