میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹیکسٹائل سیکٹر حکومت کی توجہ کامنتظر ہے

ٹیکسٹائل سیکٹر حکومت کی توجہ کامنتظر ہے

منتظم
بدھ, ۲۸ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق’وفاقی کابینہ نے نیشنل الیکڑک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے تاہم یہ فیصلہ محض سیاسی مصلحت کی بنیادوں پر کیاگیاہے تاکہ اب جبکہ عام انتخابات سر پر ہیں عوام حکومت کی جانب سے مزید بدزن نہ ہوجائیںاورلوڈ شیڈنگ کاجن بوتل میں بند کرنے کے نعرے کے تحت ووٹ حاصل کرنے کا ان کا منصوبہ ناکامی کاشکار نہ ہوجائے۔عوام کے ساتھ موجودہ حکومت کی ہمدردی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وفاقی حکومت نے تمام ذرائع اور وسائل کے ذریعے تقسیم کاروں کو اجازت دی کہ لائن لاسز کی ریکوری صارفین سے ٹیرف کی مد میں وصول کی جائے یعنی اس بجلی کی قیمت بھی عوام سے وصول کی جائے جو انھوں نے استعمال ہی نہیں اور بجلی کی ترسیل کانظام بہتر بنانے میں حکومت کی ناکامی کاجرمانہ بھی ان غریب عوام سے ہی وصول کیا جائے گا ،بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں بار بار کے اس اضافے سے غریب عوام کو تو مشکلات کاسامنا کرنا ہی پڑا اور وہ مہنگائی کی چکی میں پستے رہنے پر مبجور ہوئے لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو پہنچا کیونکہ بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ہماری صنعتوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہاہے ، اس کی وجہ سے ہماری صنعتوں کی تیار کردہ اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتاہے جس کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات بیرونی منڈیوں میں اپنے روایتی حریف ممالک بھات ،بنگلہ دیش ، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرپاتیں ، جس کا اندازہ پاکستان کی برآمدات میں مسلسل کمی کے رجحان سے لگایا جاسکتا ہے۔

ملک میں برآمدات میں روز بروز ہونے والی کمی کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اور بلاروک ٹوک اضافے سے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جانے والی ٹیکسٹائل کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہواہے ۔ ٹیکسٹائل کا شمار پاکستان کے اہم ترین صنعتی شعبے میں ہوتا ہے جس میں تمام صنعتی شعبوں میں کام کرنے والی افرادی قوت کا 40 فی صد روزگار حاصل کرتا ہے۔ یہ شعبہ ملک کو حاصل ہونے والی برآمدی آمدنی کا 62 فی صد حصہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں ٹیکسٹائل کا حصہ 8 فی صد ہے اور یہ ایشیا کا آٹھواں بڑا برآمدی سیکٹر ہے۔مسلم لیگ ن کی حکومت کے بارے میں عام طورپرتاثر یہ پھیلایاگیا ہے کہ یہ بزنس فرینڈلی ہے، اس میں شامل زیادہ تر افراد کاروباری ہیں، وہ کاروبار کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ فیکٹریاں اور کارخانے چلانا جانتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی موجودگی میں ٹیکسٹائل کا شعبہ زوال کا شکار ہو اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے عہدیدار حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے اور یہ انکشاف کرتے نظر آتے ہیںکہ 100 ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں تو یہ معاملہ حیرانی اور صدمے سے کم نہیں۔

ٹیکسٹائل سیکٹر کی بدحالی، ابتری اور زوال پزیری پر اس شعبے سے متعلقہ عہدیدار و برآمدکنندگان اپنی مشکلات کا دکھڑا ہر میٹنگ، ہر اجلاس اور ہر بات میں وزیر تجارت، وزیر خزانہ، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نئے اور پرانے سب کے سامنے بیان کرتے رہے ہیں۔ ماہرین معیشت، کاروباری تجزیہ نگار بھی اس موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جیسا اوپر بیان کیا گیا کہ پاکستان کا اہم ترین صنعتی شعبہ ہے جو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے اور برآمدات کے ذریعے سب سے زیادہ زرمبادلہ کما کر دیتا ہے مگر حکومت نے اپنے پورے دور میں اس شعبے کی بحالی اور ترقی کے لیے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

کپاس کی پیداوار میں پاکستان دْنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن ٹیکسٹائل کی برآمدات میں پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ گزشتہ 6 سال میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں بھارت میں 30 فی صد، بنگلہ دیش میں 60 فی صد اور ویت نام میں 107 فی صد اضافہ ہوا، جب کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی پیداوار میں 30 فی صد کمی ہوئی اور دنیا میں پاکستان کا حصہ 2.2 فی صد سے کم ہو کر 1.7 فی صد رہ گیا۔

اس صورت حال کی وجوہات وہی ہیں جو گزشتہ کئی سال سے مختلف حلقوں کی جانب سے ارباب اقتدار کے سامنے لائی گئی ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ پیداواری لاگت کا ہے جس میں اہم عنصر بجلی اور گیس کی قیمتیں ہیں پاکستان میں یہ دونوں خطے کے دوسرے ممالک مثلاً بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، چین، ویت نام، انڈونیشیا سے زیادہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی مصنوعات،تیار شدہ ملبوسات، ہوزری کا سامان، تولیہ اور بیڈ شیٹس، سوتی دھاگا، گرے فیبرکس اور نٹ ویر بین الاقوامی مارکیٹ میں آسانی سے قبول نہیں کی جاتیں۔ حال ہی میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا ہے کہ گیس کے نرخ پنجاب میں سندھ سے زیادہ ہیں۔ پنجاب میں ایل این جی کی سپلائی ہے جب کہ سندھ میں سوئی سدرن گیس کمپنیکی سپلائی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ گیس کے نرخ سندھ اور پنجاب کی صنعتوں کے لیے یکساں ہونے چاہئیں۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف حکومت نے ٹیکسٹائل کے شعبے کو ریلیف دینے کے بجائے گیس کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے مزید ٹیکس لگا دیا ہے، مطلب یہ کہ نیا اسٹرکچر جب بنے گا تب بنے گا مگر ٹیکس اس پر آج ہی عائد ہوگیا ہے۔ ایف بی آر کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی وصولی ہو، چاہے صنعت، تجارت، زراعت اور صارف پر کتنا ہی بْرا اثر پڑے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایف بی آر کی تو واہ واہ ہورہی ہے کہ وہ ہدف کے مطابق ٹیکس جمع کررہا ہے جب کہ یہ زیادہ تر بالواسطہ ٹیکس ہیں جن کا معیشت کے تمام شعبوں پر انتہائی منفی اثر پڑ رہا ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ 200 ارب روپے کے ریفنڈ کی ادائیگی کا ہے، اتنی بڑی رقم جو برآمدکنندگان کی ہے جو ایف بی آر کو ادا کرنی ہے حکومت نے ہر سطح پر یہ یقین دلایا کہ ریفنڈ جلد از جلد واپس کردیے جائیں گے،لیکن اب 5 سال ہونے کو آئے مگر برآمد کنندگان کو یہ رقم واپس نہیں ہوئی۔ ذرا غور کیجئے کہ جب ایک تاجر کے پاس پیسہ ہی نہیں ہوگا تو وہ کاروبار کیسے کرے گا۔ اب بجلی کی فراہمی قدرے بہتر ہوگئی ہے مگر اس کے نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ اس کا استعمال ڈراؤنا خواب ہے۔ حکومت نے برآمدکنندگان کی آسانی کے لیے پچھلے سال 180 ارب روپے کا ایک ایکسپورٹ پیکیج کا اعلان کیا تھا جو گارمنٹس، فیبرکس، کاٹن یارن اور گرے فیبرکس کے سلسلے میں امدادی پیکیج تھا لیکن اس میں شرائط یہ تھیں کہ پہلے آپ دی گئی مصنوعات برآمد کریں پھر اس کی دستاویزات فراہم کریں، اس پر ڈیوٹی ڈرابیکس ادا کیے جائیں گے جو

حکومت پہلے ہی برآمدکنندگان کے 200 ارب دبائے بیٹھی ہو اس پر کون یقین کرے گا۔ نتیجتاً اس پیکیجز کے باوجود برآمد میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اب جب کہ حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کا وقت آگیا ہے لیکن بجٹ کی تیاری کاعمل بھی شروع ہوچکاہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب حکومت اگلے عام انتخابات میں صنعت کاروںا ور ان صنعتوں سے وابستہ کارکنوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلیے صحیح ٹیکسٹائل سیکٹر کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے ۔ارباب حکومت کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس تباہ حالی کے باجوود ٹیکسٹائل سیکٹر میں اب بھی بہت دم ہے اور ذرا سا سہارا ملنے پر یہ شعبہ ایک دفعہ پھر ملک کی برآمدات کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں