سفر یاد۔۔۔ قسط47
شیئر کریں
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علاقے میں غیر مسلموں کے رہنے پر بھی پابندی نہیں ہے۔جدہ اور مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک مقام پر بہت بڑی رحل بنی ہوئی ہے یہاں سے حرم کی حد شروع ہوتی ہے، اس مقام سے آگے غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے یہاں باقاعدہ اقامہ یا پاسپورٹ چیک کیا جاتا ہے پھر آگے جانے کی اجازت ملتی ہے۔ نماز جمعہ کی وجہ سے مسجد حرام میں رش بہت زیادہ تھا۔ اظہار کو اپنی گاڑی بہت دور پارک کرنا پڑی، ہم لوگ پیدل پندرہ منٹ کی مسافت طے کرکے مسجد حرم تک پہنچے، جمعے کی نماز میں تقریبا ایک گھنٹہ باقی تھا،ہماری کوشش تھی کہ کعبہ شریف کے سامنے نماز جمعہ ادا کرتے لیکن رش کی وجہ سے بڑی مشکل سے مسجد حرام کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زم زم کی چھوٹی بوتلیں اور کھجوریں خریدتے ہوئے ہم اپنے ہوٹل پہنچے جہاں بس ریاض روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ہم نے اظہار عالم کو الوداع کہا اور بس میں سوار ہو گئے۔ راستے بھر مسجدالحرام اور مسجد نبوی میں گزرے لمحات ذہن و دل میں اجالے بکھیرتے رہے۔ راستے میں نماز اور کھانے کے لیے بس رکتی تو ہم حرمین شریفین کے خیال سے کچھ دیر کے لیے باہر آتے بس کے چلتے ہی روحانی طور پر دوبارہ اللہ اور اس کے محبوب نبیؐ کے دربار میں پہنچ جاتے۔ رات کو بارہ بجے کے قریب بس بطحہ پہنچ گئی، یہاں بسوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ بطحہ سے ہم نے ٹیکسی لی اور نسیم میں اپنے ولا پہنچ گئے۔ وہاں ہو کا عالم طاری تھا، صبح کام پر جانا تھا اس لیے سب لوگ ہی سو رہے تھے، ہم اپنے کمرے تک پہنچے، چابی لگائی لیکن دروازے کی اندر سے کنڈی لگی ہوئی تھی، ہم نے دروازہ کھٹ کھٹانا مناسب خیال نہ کیا اور اپنا بیگ اٹھا کر چھت پر پہنچ گئے جہاں ایک میٹرس پر پڑ کر سو گئے۔ صبح سورج نے کرنوں کے تیر چلا کر جگایا، سفر کی تھکن کی وجہ سے بغیر چادر اور تکیے کے بھی اچھی نیند آئی تھی، ہم نیچے اپنے کمرے میں پہنچے اور دروازہ کھٹ کھٹایا، علی اٹھ چکا تھا اس نے دروازہ کھولا ہمیں دیکھا تو گلے لگ کر عمرے کی مبارک باد دی اور سفر کا حال احوال پوچھنے لگا، کچھ دیر میں منیب اور واجد بھی اٹھ گئے انہوں نے بھی عمرے کی مبارک باد دی۔ ناشتے کے بعد ہم تیار ہو کر نیچے پہنچے، ہمیں لگا ولا کے چھوٹے سے لان میں لگے پودے بھی ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے لیکن دو روز تک پانی نہ ملنے کی وجہ سے پودے کچھ کملا گئے تھے ہم نے پائپ لگا کر پودوں کو پانی دیا جس سے ان کے چہرے بھی خوشی سے کِھل گئے۔
کالج پہنچے تو سب ملنے والوں نے عمرے کی مبارک باد دی، ہم نے زم زم اور کھجوروں کا تبرک لوگوں میں تقسیم کیا، جلال صاحب نے خصوصی طور پر مبارک باد دی، ان کا کہنا تھا یہاں رہتے ہوئے انسان بہت سارے عمرے کر لیتا ہے لیکن پہلے عمرے کے سرور اور روحانی کیفیت کا کوئی مثل ہی نہیں، جلال صاحب نے اپنے پہلے عمرے کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ کہنے لگے اس وقت نہ سڑکیں اتنی اچھی تھیں نہ ہی ٹرانسپورٹ اتنی عمدہ ہوتی تھی، ریاض سے مکہ جانے میں پورا دن لگ جاتا تھا۔ جلال صاحب سے مل کر ہم اپنے دفتر پہنچے، ہمارا انچارج سیمی موجود نہیں تھا۔ پتہ چلا سیمی صاحب سالانہ چھٹی پر فلپائن چلے گئے ہیں، ہمیں یہ تو پتہ تھا کہ سیمی نے چھٹی پر جانا ہے لیکن ایسے اچانک چلا جائے گا یہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔ پتہ چلا سیمی کے گھر میں کوئی ایمرجنسی ہو گئی ہے اس لیے وہ جلدی جلا گیا، سیمی کی چھٹی ایک ماہ کی تھی اس کی غیر موجودگی میں ہمیں اس کا کام دیکھنا تھا۔۔۔ جاری ہے