میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردی کے خلاف جنگ ، ہم کہاں کھڑے ہیں ؟

دہشت گردی کے خلاف جنگ ، ہم کہاں کھڑے ہیں ؟

منتظم
جمعرات, ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
سانحہ کوئٹہ ان سانحات کی فہرست میں ایک نیا اضافہ ہے جو گزشتہ تین عشروں سے اس قوم پر بیت رہے ہیں ۔ کسی قوم کا مسلسل سانحات کی زد میں رہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قوم مسائل کے درست تجزیہ کرنے ، امراض کی تشخیص کرنے اور مناسب علاج کرنے کے قابل نہیں رہی ۔ ویسے تو ہمارے ہاں لیڈروں ، دانشوروں ، اسلام اور پاکستان کے فکری و نظریاتی محافظوں کی اور عالمی و ملکی حالات پر گہری نظر رکھنے والے ٹی وی اینکرز اور کالم نویسوں کی کمی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کا جن قابو میں نہیں آرہا ۔ اس عرصے میں ہزاروں بے گناہ شہری اور سیکیورٹی اداروں کے سیکڑوں اہلکار بشمول افسران جاںبحق ہوئے۔ مسجد سے لے کر بازاروں تک عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک اور تعلیمی اداروں سے لے کر جی ایچ کیو تک دہشت گرد حملوں سے محفوظ نہیں رہے ۔
جب قلم بکنے لگیں ، لفظوں کے سودے ہوں ، دانشوری تجارتی جنس بن جائے ، سیاست کاروبار ہو،سپہ گری مشن کے بجائے پیشہ بن جائے ، مذہب دولت ، شہرت اور دنیا پرستی میں مبتلا لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہو تو ایسی صورتحال سے دو چار ملک اور قوم ہر معاملے میں کنفیوز رہتی ہیں۔ یکسو ہو کر درست فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہوتی ۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔ سیاستدانوں کا اپنا ایجنڈا ہے ،سیکیورٹی اداروں کا اپنا ۔میڈیا گروپس الگ الگ ایجنڈا رکھتے ہیں ، صحافی اور اینکرز کی اپنی الگ ترجیحات ہیں ، قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک پیج پر نہیں ۔ اس قسم کی صورتحا ل میں اختیارات بھی تقسیم رہتے ہیں اور ہر فیصلہ متنازع بن جاتا ہے ۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اس عرصے میں لا تعداد اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے، پالیسیاں بھی بنیں اور اقدامات بھی اٹھائے گئے لیکن ہم اپنی منزل کے قریب ہونے کے بجائے مزید دور ہوتے چلے گئے ۔ ہمارا معاشرہ عدم برداشت اور انتہا پسندی کا شکار ہو گیا، لاقانونیت ایسی بڑھی کہ وطن عزیز اس اعتبار سے 113 ممالک کی فہرست میں 106 ویں نمبر پر آگیا ۔ حکومت اور محکمے اس قدر غیر موثر ہوئے کہ گمشدہ حکومت کی اصطلاح بھی سامنے آگئی۔ سیکیورٹی مسائل نے حکمرانوں کو عوام سے مزید دور کردیا ۔ جب حکومت غیر موثر ہوئی تو ہر سطح پر چیک اینڈ بیلنس کمزور ہوا اور کرپشن بڑھتی چلی گئی ۔ کرپشن معاشی بحران کا سبب بنی اور ملک غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہوگیا ۔
اخباری اطلاع ہے کہ حکومت دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک مرتبہ پھر سوچ بچار پر مجبور ہوئی ہے اور وزیر اعظم کی ہدایت پر قائم نیکٹا اسٹیئرنگ کمیٹی نے دہشت گردی کے خلاف نئی پالیسی کی تیاری کے لیے گلگت بلتستان آزاد کشمیر اور فاٹا سمیت چاروں صوبوں سے تجاویز طلب کرلی ہیں ۔ اسٹیئرنگ کمیٹی کے اسلام آباد میں منعقدہ اجلا میں اس امر پر غور کیا گیا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان میں مزید فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے ۔ صوبوں کو تین سوالات دے کر تجاویز اور رہنمائی مانگی گئی ہے۔ یہ تینوں سوالات پڑھ کر قارئین جان سکیں گے کہ ابھی ہم دہشت گردی اور شدت پسندی سے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں ۔ اخباری خبر کے مطابق نیکٹا اسٹیئرنگ کمیٹی جسکے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید ہیں نے صوبوں سے کہا کہ وہ تین پہلووں پر تجاویز تیار کریں ۔
1 ۔ ( ملک میں جاری دہشت گردی ) کس قسم کی دہشت گردی ہے ؟
2 ۔ اس دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں ؟
3 ۔ اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
ہم جس دہشت گردی سے گزشتہ 30 سالوں سے نبرد آزما ہیں اور جس کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے ”جہاد“ میں ان گنت قربانیاں دے چکے ہیں ،ہماری حکومت کو ابھی یہ بھی نہیں پتا کہ وہ کس قسم کی دہشت گردی ہے ، اسکے اسباب کیا ہیں اور اس کا خاتمہ کیسے ہوگا ۔گویا اب تک ہم اندھیرے میں تیر چلاتے رہے ہیں ؟
واقعی یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے 30 سال دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے بعد بھی ہم اپنے دشمن کے بارے میں بحیثیت قوم یکسو نہیں ہیں ۔ اگر قوم سے یہ سوال کیا جائے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ہمارا صل دشمن کون ہے ؟ تو میرے خیال میں کم از کم دس مختلف جواب آئینگے ۔ یہی حال دہشت گردی سے متعلقہ دیگر سوالوں کا ہے ۔یعنی ہماری حکومتیں دہشت گردی کے انتہائی حساس معاملے پر قومی اتفاق رائے کی فضاءپیدا نہ کرسکیں اس معاملے میں رائے کا جو فرق ہے وہ اتنا رہا جتنا اندھیرا اور اجالا۔ کسی کے نزدیک دہشت گرد ،کسی کے نزدیک مجاہد ، کسی کے نزدیک اسلام اور پاکستان کے نادان دوست اور کسی کے نزدیک امریکا ، انڈیا اور روس کے ایجنٹ ۔ اسی مناسبت سے اس سوال کے جواب میں بھی فرق رہا کہ دہشت گردکیا چاہتے ہیں ؟ کسی کا کہنا تھا پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں، کسی نے کہا کہ اسلام کا چہرہ بگاڑنے کے لیے امریکا انھیں استعمال کر رہا ہے ،کسی نے کہا کہ ان کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے ، کسی نے کہا دہشت گردی اور خودکش حملے دراصل مجاہدین کو بدنام کرنے کے لیے کفار کرا رہے ہیں ، کسی نے کہا کہ غربت اور تنگدستی کی وجہ سے نوجوان باغی ہوکر دہشت گردوں کے آلہ کار بن رہے ہیں ، کسی نے کہا کہ ریاست فرقوں کے ساتھ جو امتیاز برت رہی ہے اسکی وجہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ جب دہشت گردی جیسے حساس قومی معاملے کے مختلف پہلووں پر اس قدر الجھاﺅ اور اس قدر لاعلمی ہوگی تو پھر جیت تو دہشت گردوں کی ہی ہوگی ناں ۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری قومی جنگ غیر سنجیدگی ،بے جا مصلحت ، لاپروائی ، غفلت اورغیر ذمہ دارانہ رویوں کے سبب طول پکڑ رہی ہے اور کوئی ذمہ داری لینے کے لیے بھی تیا رنہیں ہے ۔ کم از کم اب حکومت اور با اختیار اداروں کو دہشت گردی کے بیرونی اور اندرونی عوامل اور اس کے فکر ی و نظریاتی اسباب کا مکمل ادراک کر لینا چاہیے تاکہ سفارتی ، سیاسی ، فکری اور عسکری سطح پر درست اقدامات اٹھائے جا سکیں اور دہشت گردی کے خلاف ہمارا تیر نشانے پر لگ سکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں