جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی
شیئر کریں
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 24 اور 25 دسمبر کو سیکورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر آپریشن کیا۔ترجمان پاک فوج کے مطابق آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا، آپریشن کے نتیجے میں 13 دہشت گردہلاک ہو گئے۔آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سیکورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں اور معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھے، علاقے میں موجود کسی بھی دیگر دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
پاک فوج اور سیکورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور دہشت گردی کی وارداتوں سے ظاہرہوتاہے کہ ملک میں امن و امان کے حوالے سے صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ملک کے دو اہم صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاک فوج کے بہادر جوان تسلسل کے ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے لازوال قربانیاں دے رہے ہیں، وطن اور اہل وطن کے تحفظ کیلئے ان کا یہ جذبہ یقینا قابل تحسین ہیں۔ تاہم یہ صورت حال اس اعتبار سے تشویش ناک ہے کہ دہشت گرد وقفے وقفے سے سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں،اور ہماری انٹیلی جنس ان کی سرگرمیوں سے اس حد تک غافل ہے کہ بہت کم وارداتوں کی پیشگی اطلاع مل پاتی ہے، اس صورت حال سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ان کے بڑھتے ہوئے حوصلے کی نشاندہی کرتے ہیں۔چار روز پیشتر دہشت گردوں کے ایک گروپ نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے جنوبی وزیر ستان کے ضلع مکین میں قائم سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 16 فوجی جوانوں کو شہید کر دیا تھا، فائرنگ کے تبادلے میں 12 دہشت گرد بھی مارے گئے تھے لیکن اگر ہماری سیکورٹی فورسز کو ان حملوں کے حوالے سے پیشگی کوئی اشارہ مل جاتا تو شاید سیکورٹی فورس کو اتنے جوانوں کو قربان نہیں کرنا پڑتا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے لیے آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جوکہ ایک معمول کی کارروائی ہے اور اس طرح کی کارروائی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ دہشت گرد اپنی مذموم کاررروائیوں کے بعد متعلقہ علاقوں سے بہت آگے نکل جاتے ہیں ،اور کلیئرنس کی کارروائی کے دوران عام طوپر اپنے گھروں میں موجود بے ْصور افراد نشانہ بنتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں او ر پاک فوج اور سیکورٹی فورسز پر بیشتر حملوں کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں اور ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستنان کی سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے والے بیشتر دہشت گردوں کا تعلق پڑوسی ملک افغانستان سے ہوتاہے، پاکستان بارہا افغان حکومت سے مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکے اور سرحد کے اطراف موثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنائے۔ افغانستان کے غیر ذمے دارانہ اور غیر سنجیدہ طرز عمل کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے،لیکن اب تک اس طرح کے احتجاج کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا ہے او ر افغان حکومت کی یقین دہانیوں کے باجود افغانستان سے دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلے کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکاہے ۔ وفاقی حکومت کو اس ضمن میں سنجیدہ اور ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔دس سال قبل آرمی پبلک اسکول پر حملے میں 16 دسمبر کو پھول جیسے 126 طلبا اور اس کے اساتذہ شہید ہوگئے تھے اس حملے کے ڈانڈے بھی افغانستان سے ہی ملے تھے۔ہم ہر سال ان پرسوز سانحات کو یاد کرکے برسی مناتے ہیں لیکن دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے جو امن کے قیام کے ضمن میں ان کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ دوسری جانب ہماری قومی معیشت قرضوں کے بوجھ اور آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے تو معاشی استحکام کی منزل کیسے حاصل ہوگی۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ جو اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔
رواں سال یعنی 2024 اپنی تمام ترحشر سامانیوں کے ساتھ ختم ہونے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی سیکورٹی کے حوالے سے ملک کی داخلی سلامتی کے منظر نامے میں پیچیدگی، اتار چڑھاؤ اور مہلکیت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔بلوچ علیحدگی پسند اور دیگر عسکریت پسند گروہوں نے نہ صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رکھابلکہ انہوں نے اپنے حملوں میں فوجی کیمپوں، سیکورٹی قافلوں اور چیک پوسٹوں کو کثرت سے نشانہ بناتے ہوئے جارحانہ انداز بھی اختیار کررکھا ہے۔اگرچہ پاکستانی حکومت نے جاری انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IBOs) کو تیز کرنے کے لیے عزمِ استحکام کے تحت انسداد دہشت گردی کی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ دہشت گرد گروہوں کو کمزور کرنے میں اب تک بظاہر ناکام رہی ہے۔افغانستان اور ایران میں بالترتیب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی بیرونی پناہ گاہوں نے بھی عزم استقامت کی افادیت کو نقصان پہنچایا ہے۔2024 میں سب سے زیادہ تشویشناک رجحان عسکریت پسندانہ حملوں کی سنگینی کا تھا جس کے نتیجے میں زیادہ اموات ہوئیں۔ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے ڈیٹا بیس کے مطابق رواں سال 1261 پرتشدد واقعات میں 2,113 افراد کی اموات ہوئیں۔جبکہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 921 پرتشدد واقعات میں 1,513 افراد جان سے گئے تھے۔ پچھلے سال کے مقابلے اس سال اموات میں حیران کن طور پر 36 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، جو پاکستانی شدت پسند اور باغی گروپوں کی زیادہ مہلک آپریشنل حکمت عملیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اسی طرح خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع جیسے بنوں، ڈی آئی خان اور لکی مروت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں فوجی کیمپوں کی حفاظت کے لیے لیویز فورس کی تعیناتی سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔پاکستان میں عسکریت پسند اور باغی گروہوں کی بڑھتی ہوئی مہلکیت اور لچک کے تین اہم عوامل ہیں۔سب سے پہلے پاکستانی باغی اور عسکریت پسند گروہوں کے درمیان انضمام اور اتحاد نے انہیں اپنی آپریشنل حکمت عملی کو بہتر بنانے کے قابل بنایا ہے، جس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کو زیادہ اموات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انضمام اور اتحاد عسکریت پسند گروہوں کو اپنے وسائل کو یکجا کر کے، کاموں کو تقسیم کرنے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے، یعنی تشہیر حاصل کر کے، نئی بھرتیوں اور فنڈنگ حاصل کرنے اور اپنے نقصانات کو کم کرنے کے قابل بناتا ہیں۔ایسے اتحاد ایک گروپ کے لائف سائیکل اور میدان جنگ کی افادیت سے جڑے ہوئے ہیں،جتنے بڑے گروپ کا اتحاد ہوتا ہے اس کے اثرات اتنے ہی بڑے اور زیادہ مہلک ہو جاتے ہے۔ اطلاعات کے مطابق 2024 میں، تقریباً 16 عسکریت پسند دھڑوں نے ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود سے وفاداری کا عہد کیا، جن میں9 خیبر پختونخوا، چار بلوچستان، 3 سندھ اور ایک پنجاب سے تھا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جولائی 2020 سے لے کر اب تک پاکستان بھر میں 65 عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی میں ضم ہو چکے ہیں۔لشکر اسلام اور حافظ گل بہادر گروپ جیسے شدت پسند گروہوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے جس میں سیکورٹی فورسز کے خلاف مشترکہ حملے بھی شامل ہیں۔اسی طرح بلوچ علیحدگی پسند 2018 میں تشکیل پانے والے بلوچ راجی آجوئی سنگر (بی آر اے ایس) کے اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اس اتحاد کے سائے تلے مزید منظم حملے کرتے رہے ہیں۔دوسرا، افغانستان اور ایران میں بالترتیب ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی بیرونی پناہ گاہیں بھی ان کی تشدد کی لہر میں اضافہ کی ایک وجہ بنی ہوئی ہیں۔بیرونی پناہ گاہیں عسکریت پسندوں کی مہم کو جاری رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے خاتمے کو مشکل بناتی ہیں۔بیرونی پناہ گاہیں باغی اور عسکریت پسند گروپوں کو اپنے ا سٹریٹجک اثاثوں اور سرکردہ رہنماؤں کو نقصانات سے بچانے، انہیں بھرتی، بنیاد پرستی، فنڈ اکٹھا کرنے اور حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے محفوظ جگہیں فراہم کرتی ہیں۔طالبان کی افغانستان میں اقتدار میں واپسی نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی عسکریت پسندی کی مہم کو پھر سے تقویت بخشی ہے۔مزید برآں، ٹی ٹی پی کے رہنما پاکستان میں اپنے کیڈرز کو نہ صرف ا سٹریٹجک رہنمائی فراہم کر رہے ہیں بلکہ گروپ کے نظریاتی بیانیے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی طرح بلوچ علیحدگی پسند گروہ قبائلی روابط، غیر محفوظ سرحدوں، اور ایران پاکستان پراکسی جنگ کا فائدہ اٹھا کر ایران میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے کام کرتے ہیں۔ان پناہ گاہوں نے پاکستان کی داخلی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہوئے باغی اور عسکریت پسند گروہوں کو ختم کرنے کے طاقت کے ذرائع کی افادیت کو سنجیدگی سے محدود کر دیا ہے۔اسلام آباد کو ان پناہ گاہوں کو بند کرنے کے لیے کابل اور تہران سے تعاون حاصل کرنے کے لیے اپنی سیکورٹی صلاحیتوں کو ایڈروائٹ (adroit) ڈپلومیسی کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔تیسرا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی میدان میں مداخلت نے اسے سرحدوں کی حفاظت اور داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے توجہ ہٹا دیا ہے۔عزم استحکام کی حکمت عملی کے تحت اب تک تیز رفتار آئی بی اوز صرف حکمت عملی سے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کو اپنی سلامتی اور سیاسی دونوں صورتوں کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔اگر اسٹیبلشمنٹ اور سب سے بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی کشمکش جاری رہی تو یہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی۔امریکی انخلا کے بعد، پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے فریم ورک میں بڑا خلا، جو کہ واشنگٹن کی مالی امداد پر منحصر تھا، بے نقاب ہو گیا ہے۔لہٰذا، ایک مقامی اور کفایت شعار انسداد دہشت گردی کی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔