میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد میں ریکارڈاضافہ

دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد میں ریکارڈاضافہ

منتظم
جمعرات, ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mufti-waqas-rafi

مفتی محمد وقاص رفیع
اس وقت دنیا میں جنگوں اور تنازعات کے سبب گھروں سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداداپنی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے اور اس تعداد میں روز افزوں مزیداضافہ ہی ہورہا ہے ۔ گزشتہ برس 2015ءکے آخرتک دنیا بھر میں تارکین وطن ، پناہ گزینوںاور اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 6کروڑ 53 لاکھ سے ترقی کرکے کچھ مزید اوپر ہوچکی تھی ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ہر 113 میں سے ایک آدمی اپنے ملک سے بے گھر ہے۔اورآپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ یہ صرف ایک سال میں 50لاکھ کا اضافہ ہے ۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (U.N.H.C.R)کے سربراہ کے مطابق اس وقت پناہ گزینوں کے بحران سے نبرد آزما یورپ میں ’غیر ملکیوں سے نفرت کرنے کا ماحول‘ انتہائی پریشان کن ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کے سب سے بڑے سیلاب سے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں اور متنازع امیگریشن مخالف پالیسیوں کو وسیع حمایت ملی ہے ۔ عالمی یوم پناہ گزیناں کے موقع پر جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ : ”تاریخ میں پہلی بار پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ سے متجاوزہوئی ہے ۔ ان ۶ کروڑ ۳۵ لاکھ پناہ گزین افراد میں سے نصف یعنی 3 کروڑ 26یا 27 لاکھ جنگ زدہ ممالک شام ، افغانستان اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں ۔
یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران پر زیادہ تر توجہ کے باوجود 86 فی صد پناہ گزین کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں مقیم ہیں ۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی طرف سے پناہ حاصل کرنے کی سب سے زیادہ درخواستیں جرمنی کو موصول ہوئی ہیں ۔جس سے واضح طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ وہ ملک پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے کتنا تیار ہے۔
انٹر نیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (I.O.M) کے مطابق سمندر کے راستے ایک لاکھ گیارہ ہزار (1,11,000) سے زائد پناہ گزین یورپ کے سواحل پر اترے ہیں۔جب کہ دوسرے ادارے اس تعداد کو اس سے بھی زیادہ بتلاتے ہیں۔
(I.O.M)کے مطابق زمینی راستے سے تقریباً 35 ہزار افراد یورپ پہنچے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر افرادکی پسند یدہ منزل جرمنی اور سویڈن جیسے امیر ممالک ہیں۔
اس بحران سے یورپی یونین کے ممالک میں سیاسی تضاد پیدا ہوئے اور بعض ممالک نے اپنی اپنی سرحدوں پر باڑ لگانے یا پھر سے سرحدوں کے قواعد و ضوابط عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک علیحدہ بیان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں (U.N.H.C.R)کے سربراہ نے کہا ہے کہ یورپی رہنما تعاون کرنے کی پالیسیوں اور پناہ گزینوں کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی تاثرات سے لڑنے کے لیے زیادہ کوششیں کریں۔
دوسری طرف 1980ءکی دہائی میں عارضی طور پرپناہ کی تلاش میں پاکستان آنے والے افغان مہاجرین آج 36 برس بیت جانے کے بعد بھی پاکستان کی سرزمین پر برابر براجمان ہیں۔ امن و امان اور معیشت پر اثر انداز خانہ بدوش، افغان مہاجرین کو پاکستان کی مٹی ایسی راس آئی کہ وہ اب کسی صورت یہاں سے واپس جانے کا نام تک نہیں لے رہے ۔ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جوغیر ملکی پناہ گزینوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر لادے ہوئے ہےں۔جن میں آج سے 36سال قبل آئے ہوئے خانہ بدوش، افغان مہاجرین اورپناہ گزین بھی شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں غیر ملکی پناہ گزینوں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تعداد انہی خانہ بدوش، افغان مہاجرین کی ہے جو سوویت جنگ کے آغاز میں 1980ءکی دھائی میں پاکستان کی سرزمین پر عارضی طور پر پناہ لینے کے لیے آئے تھے اور پھر وہ یہیں کے ہوکر رہ گئے ہیں ۔
اور اب تو جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے توں توں پاکستانی معیشت ان کے بھاری بھرکم بوجھ تلے دبتی جارہی ہے ۔اور پاکستان کے امن و امان کے معاملے میں بھی سروں پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔ چنانچہ پاک افغان سرحد طور خم بارڈر پر حالیہ گیٹ کی تعمیر کا واقعہ اس کا بین ثبوت ہے ۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی پاکستان میں ۵۱ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین آباد ہیں ۔اور ان میں سے بہت سے افغانیوں نے یہاں نہ صرف یہ کہ اپنے رہنے کے لیے مستقل طور پر گھر تعمیر کرلیے ہیں ، بلکہ اپنے اپنے کاروبار بھی کافی حد تک مستحکم کرلیے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں