میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳ نومبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے”حرفِ انکار” سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں، جو تاریخ کی گپھاؤں میں بُکل مارے بیٹھی مقتدر قوتوں کی جنبشِ ابرو سے جنمتی ، اشاروں کے پنگھوڑوں میں جھولتی اور اُن کی آرزؤں کے جھکڑوں میں ڈولتی ہے۔
موٹے پیٹوں کے لشکر اور خانہ ساز دانشور سیاست سے اعلانِ لاتعلقی کو ایک مقدس فرمان کے طور پر پیش کرنے میں جُتے ہیں، ضمانت کوئی نہیں کہ اگلے دوہفتوں میں وہ اسی موقف پر قائم بھی رہیں گے کہ نہیں۔ مریم نواز نے جس ‘نواز بیانیے’ کو اُبال دیا ہے، وہ اب باسی کڑھی ہے، جسے لندن کی یخ بستہ ہواؤں میں آگ دینے سے جوش پیدا ہونے کا دور دور تک امکان نہیں۔ تاریخ ان بیانیوں کو روندتی ہوئی آگے نکل رہی ہے۔ 3 نومبر2007ء سیاست کی منڈیر پر کوے کی طرح کائیں کائیں کرتا رہے گا۔ ابھی یہ تاریخ طلوع ہونے میں کچھ ماہ باقی تھے۔ اسی سال 9 مارچ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری آرمی چیف ہاؤس راولپنڈی طلب کیے گئے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز، چیف جسٹس سے خائف تھے، وہ کراچی اسٹیل ملز کو اونے پونے فروخت کرچکے تھے اور اس کے عوض ایک بھاری رقم ہڑپ چکے تھے۔ اعلیٰ حکام فرماتے ہیں کرپشن کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر اسی کرپشن نے پاکستان کے معاشی امکانات اور میدانِ سیاست کو آکاس بیل کی طرح جکڑ لیا ہے۔
کراچی اسٹیل کے سودے کی تکمیل پر بضد شوکت عزیز مسلسل کانا پھوسی سے پرویز مشرف کو افتخار محمد چودھری کے خلاف اُکسا چکے تھے۔ امریکا کی ہیبت سے دم بخود اور اپنی سرگرمیوں میں بے خود مشرف بیرونی سہاروں کے اعتماد پر چیف جسٹس کی طلبی اکثر فرمانے لگے تھے۔ مگر یہ طلبی کچھ زیادہ تلخ ثابت ہوئی۔ مشرف نے کراچی اسٹیل کے سودے پر اُن کے سوموٹو کو اپنی مرضی سے نمٹانے کا کہا۔ کچھ عدالتی معاملات مزید تھے، اس پر ہدایت دینے کی کوشش کی، چیف جسٹس تب ایک اعلیٰ فوجی رابطے میں آ چکے تھے۔ جنرل مشرف کے لیے راستے مسدود کرنے کا ادارہ جاتی عمل شروع ہو چکا تھا مگر وہ نہیں جانتے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں”گھر پھونک تماشا دیکھ” کی روش پر گامزن مشرف امریکا پر حد سے زیادہ اعتماد کرتے تھے، غلط فہمی ایسی کہ حامد کرزئی کی طرح امریکی صدر کو دوست سمجھ بیٹھے۔ ابھی تو صرف ہلکی پھلکی یقین دہانیوں سے کام چلایا جاتا ہے اور امریکی صدر سے ملنے کی براہِ راست عیاشی بھی کوئی ایسی میسر نہیں۔ الغرض چیف جسٹس کے رویے کو دیکھ کر مشرف آپے سے باہر ہو گئے، انہیں ایک گالی بہن سمیت دے ڈالی۔ چیف جسٹس بپھر گئے، وہی گالی دُہرا بیٹھے۔ مشرف چیف جسٹس کو دیگر جرنیلوں کے سپرد کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ تمام جرنیلوں میں ایک ایسے تھے، جو خاموش بیٹھے رہے، وہی چیف جسٹس کی طاقت تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ پر ”نو” لکھ کر لائے تھے۔ چیف جسٹس کی جب تادیب وتنبیہ ہورہی تھی، تو نظر بچا کے وہ ہاتھ دکھاتے تھے، جس پر ”نو” لکھا تھا، چیف جسٹس کا حرفِ انکار وہی ”نو” تھا۔ اس سے مزاحمت کے استعارے تراشنے والے بیچارے ہی لگتے ہیں۔ اس نشست کے خاموش جرنیل جب جانے لگے، تو واحد وہی تھے، جنہوں نے جسٹس افتخار چودھری سے ہاتھ ملایا ، اور اسے ذرا سا دبا دیا، پیغام واضح تھا، راحت اندوری کہاں یاد آئے:

راز جو کچھ ہو ، اشاروں میں بتا بھی دینا
ہاتھ جب اُن سے ملانا تو دبا بھی دینا

تاریخ میں یہ ہاتھ ہمیشہ حرکت میں رہا ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں یہی ہاتھ کارگزار رہا۔ مارچ 2007ء سے دسمبر 2013ء تک اس ”بابرکت ہاتھ” نے پاکستان کی سیاست کے رخ ورخسار، نقش ونگار اور خدوخال سنوارے۔ اس دوران میں شوکت عزیز رخصت ہوئے، جنرل پرویز مشرف کو نوسال اور 53 روز بعد اپنی وردی اُتارنی پڑی۔ خاموش جرنیل نے طاقت کی سب سے بڑی جادوئی چھڑی سنبھال لی۔ جنرل کیانی نے اپنے ہاتھوں کو جنبش دیتے ہوئے پانچ وزرائے اعظم کا بندوبست دیکھا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے رات گئے ایک توسیع لی۔ یوسف رضا گیلانی عدالت کے ہاتھوں گھر پہنچے۔ راجہ پرویز اشرف آ دھمکے۔ جنرل کیانی اپنے منصب پر تھے، خاموش۔ بولتا صرف ہاتھ تھا۔ کم لوگ آگاہ ہیں، اس دوران جنرل کیانی سادہ لباس میں ماڈل ٹاؤن میں نوازشریف سے ملے۔ تاریخ کے عینی شاہد کے طور پر اس خاکسار نے یہ تمام عرصہ لاہور اور اسلام آباد میں گزارا تھا۔ انتخابات سے قبل اور نگراں بندوبست سے پہلے ہی اگلے انتخاب کے بعد کے تمام مراحل ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی اس اس اہم ملاقات میں طے ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ نگرانوں کے ناموں پر بھی میاں صاحب کے ساتھ مشاورت کی گئی تھی۔ معلوم نہیں سیاست سے یہ ہاتھ کب لاتعلق ہوا؟ اگر چہ سلیکٹڈ تو عمران خان کو کہا گیا، جسے سیاست میں فوج لائی نہ جس کی مقبولیت میں کبھی فوج نے حصہ ڈالا، انتخابات صرف 2018ء میں تو نہیں ہوئے۔ یہ مئی 2013ء میں بھی ہوئے تھے۔ جن کے نگرانوں کو بھی میاں صاحب کی مرضی سے مقرر کیا گیا تھا۔ نگران نظام کے قیام سے قبل لاہور کے گلی کوچوں میں نوازشریف کی حکومت کے قیام کے فیصلے کی باز گشت موجود تھی۔ ہاتھ وہی خفیہ تھے۔ فیصلے وہیں ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کھیل کو نوازشریف، زرداری اور باقی لوگوں کے حق میں سلیکشن کے زمرے میں نہیں لیا جاتا۔ یہ ایک استحقاق سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے تاریخ میں 1988، 1990،1993، 1997، 2002، 2008اور 2013ء کے سات انتخابات کے ذریعے بننے والی کسی حکومت کے وزیراعظم سے لاڈ پیار کا وہ مفہوم نہیں نکالا گیا، جو عمران خان کے حصے میں آیا۔ ذرائع ابلاغ عصبیت کے شکار ہی نہیں اس منافع بخش کھیل کے شراکت دار بھی ہیں۔ مقتدر راہداریوں میں معاملات کی اپنی تہہ داریاں ہوتی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ماضی سے اپنے لمحہ موجود میں آجائیں، جو مقتدر اداروں اور عمران خان کی آپا دھاپی کا شکار ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ہمارے معزز ڈی جی آئی ایس آئی کا تب کے وزیراعظم عمران خان سے پورا مکالمہ کیا ہوا تھا، جنرل ندیم انجم کا مگر ارشاد ہے کہ عمران خان کرپشن کو پہلا جبکہ وہ معیشت کو پہلا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، مگر معیشت کا مسئلہ کرپشن ہی ہے۔ ماضی کو ماند یادداشتوں میں پھر اجاگر کیجیے اور تھوڑی دیر کے لیے غور کیجیے! اگر کراچی اسٹیل ملز کی ڈیل کے پیچھے کرپشن نہ ہوتی تو شوکت عزیز اس ڈیل کے باعث جنرل مشرف کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے متنفر نہ کرتے۔ پھر آرمی چیف ہاؤس میں 9 مارچ 2007ء کی وہ جبری ملاقات نہ ہوتی، جس میں گالی دینے اور سننے کے بعد ناقابل مفاہمت ماحول بنا، جس کے نتیجے میں 3 نومبر کی وہ تاریخ طلوع ہوئی، جو”ایمرجنسی پلس ” کے نام سے مارشل لاء کی چَھب رکھتی تھی۔ آگے تاریخ ہے۔ اس کھیل سے اُبھرنے والے جنرل کیانی نے پھر چھ برس تک ایک طاقت ور آدمی کے طور پر تمام سیاسی امور اپنی گرفت میں رکھے۔ تاریخ میں یہ پہیہ کسی پریس کانفرنس سے اُلٹا نہیں گھومے گا۔ کرپشن صرف معیشت کے لیے نہیں سیاست کے لیے بھی مسئلہ ہے۔ جسے کالی دولت سے گرفت میں رکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ گھوڑوں کی منڈی میں بھی یہی دولت استعمال ہوتی ہے۔ اسلام آباد کے سندھ ہاؤس کے مناظر سامنے ہیں۔ اہلِ فلسفہ سمجھتے ہیں کہ نیوٹرل کا لفظ بھی اپنے باطن میں نیوٹرل نہیں، پھر بھی نیوٹرل ہونا ایک وعدہ ہے اور عمل ایک اشارہ۔ یہ وعدہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی اس کی گواہی نہیں دیتا۔ داغستان کا نامور ادیب مستقبل کی آہٹوں کو ماضی سے سنتا ہے، کہتا ہے: اگر تم ماضی کو پستول کا نشانا بناؤ گے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانا بنائے گا”۔ 3 نومبر ماضی ہے، مستقبل سامنے پڑا ہے۔ یقین کے برخلاف یقین کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ چچا غالب اگر چہ بہکاتے ہیں

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں