سرکار دو عالم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن و جمال
شیئر کریں
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
جناب نبی کریم ﷺکا حسن و جمال کیا کہنا،اللہ جل شانہُ نے روئے زمین پر آپ سے حسین کسی کو پیدا ہی نہیں کیا،اس جہان میں آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہیں نہ ہی قیامت تک کوئی آپ کا ثانی ہو سکتا ہے،آپ ﷺ کا حسن و جمال ایسا کہ چودہویں رات کا چاند بھی آپ ﷺ کے حسن کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔حضور ﷺصورت،سیرت کمالات میں گویا ہر چیز میں سردار ہیں،سرورِ دوعالمﷺ کے کمالات و خصائص اور باطنی فضائل و محامد کے علاوہ آپﷺ کا بے مثل حسن و جمال بھی آپ ﷺ کا زِندہ جاوید معجزہ ہے، جس کا تذکرہ کم و بیش سیرت کی تمام کتب میں موجود ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم آپﷺ کی سیرتِ مطہرہ کو جاننے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی صورتِ طیبہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ سیرت کے ساتھ صورت سے بھی پیار پیدا ہو۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے کہ صورت، سیرت کی عکاس ہوتی ہے اور ظاہر سے باطن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ انسان کا چہرہ اس کے من کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پہلی نظر ہمیشہ کسی شخصیت کے چہرے پر پڑتی ہے، اُس کے بعد سیرت و کردار کو جاننے کی خواہش دل میں جنم لیتی ہے۔، شمس الدین شیرازی نے حضورﷺ کے حسن وجمال کو بیان کرنے میں زبان وبیان کی بے مائیگی کااظہار ان اشعار میں کیا:
یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَر
مِنْ وَّجْھِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَر
لَا یُمْکِنُ الثَّنَآءُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر
ترجمہ:اے صاحبِ جمال اور اے عالم بشریت کے سردارﷺ، آپؐ کے روشن کرنیوالے رخ انور کے فیضان سے چاند کو روشن کیا گیا ہے، آپؐ کی تعریف وتوصیف ممکن ہی نہیں ہے جیساکہ اس کا حق ہے۔ المختصر یہی کہاجاسکتا ہے: اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد مخلوق میں سب سے اعلیٰ واَولیٰ آپؐ ہی کی ذات ہے“۔
حضرت براءؓ بن عازب سے پوچھا گیا: رسول اللہﷺ کا چہرہئ انور شمشیر کی مانند تھا، فرمایا:نہیں!بلکہ چاند کی طرح حسین وجمیل تھا“ (بخاری:3552) انہوں نے چاند سے تشبیہ دی کہ چاند میں چمک دمک بھی ہے اور گولائی بھی، حضرت جابرؓ بن سمرہؓ سے یہی سوال ہوا تو فرمایا:نہیں! بلکہ آپ کارخِ انور سورج اور چاند کی طرح روشن، چمکدار اور گولائی لیے ہوئے تھا“ (مسلم:2344)حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں میں نے نبیﷺ سے بڑھ حسین وجمیل کسی اور کو نہیں پایا، یوں معلوم ہوتا کہ آپ کے رُخِ انور میں سورج رواں دواں ہو“ (ترمذی:3648)حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں میں چرخہ کات رہی تھی اور رسول اللہﷺ میرے سامنے بیٹھے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے، آپﷺ کی مبارک پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے، جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں، اس حسین منظر کو دیکھ کر میں حیران رہ گئی، نبی کریمﷺ نے مجھے حیرت میں دیکھا تو فرمایا:کیوں حیران ہورہی ہو، میں نے کہا:آپ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے ہیں، جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:یہ سن کر نبی کریمﷺ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا:اے عائشہؓ!جس طرح تونے آج مجھے خوش کیا ہے اِس سے بڑھ کراللہ تعالیٰ تجھے خوشیاں عطافرمائے“ (سنن بیہقی:15427) حضرت جابرؓ بن سمرہ بیان کرتے ہیں:ایک مرتبہ چاندنی رات میں مجھے نبی کریمﷺ کی زیارت کا موقع ملا، آپﷺ نے ایک سرخ پوشاک زیب تن کررکھی تھی، میں کبھی آپﷺکے رُخِ انورپر نظر ڈالتا اور کبھی چاند کی طرف دیکھتا، کافی دیر یہی سلسلہ جاری رہا اوربار بار تجزیے کے بعدبالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ آپﷺ چودھویں کے چاند سے زیادہ دلربا اور حسین وجمیل ہیں“ (ترمذی: 2811)حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت حمید کے سوال پر حضور اکرم ﷺ کے معمولات بیان کیے اورآخر میں جمال مصطفیﷺکابیان ان محبت بھر الفاظ میں کیا”نہ کسی ایسے ریشم کو چھونے کا اتفاق ہواہے جو حضور نبی کریمﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہواورنہ ہی کوئی ایسی خوشبو سونگھی ہے جوحضور ﷺ کی خوشبو سے زیادہ معطر ہو“(صحیح بخاری)حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺکے قرب میں گزری ہوئی مقدس ساعتوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”نماز کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ ﷺ کے دست انور کو پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا۔ آپ کا دست اقدس برف سے زیادہ خنک اورکستوری سے زیادہ خوشبودار تھا“(صحیح البخاری)حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نمازفجر کے بعد اپنے کاشانہء اقدس کی طرف روانہ ہوئے۔ میں بھی آپﷺکی معیت میں چل دیا۔ راستے میں بچوں نے آپ کی زیارت کا شرف حاصل کیا آپ ﷺ ایک ایک کرکے ان کے رخساروں پر دست اقدس پھیرتے جارہے تھے۔ آپ نے میرے رخساروں پر بھی دست اقدس پھیرا،میں نے آپ ﷺ کے دست اقدس میں ایسی ٹھنڈک اورخوشبو کو محسوس کیا گویا آپ نے اپنے دست اقدس کو ابھی عطار کے صندوقچے سے نکالاہو(صحیح مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں ”حضورﷺ ہمارے گھر تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا، قیلولے کے دوران نبی کریم ﷺ کو پسینہ آگیا، میری والدہ ایک شیشی لائیں اورحضورﷺ کے عرق مبارک کو اس میں ڈالنا شروع کردیا۔ حضورﷺ کی آنکھ کھل گئی۔ آپ نے پوچھا: ام سلیم! یہ کیا کررہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: ”یہ آپ کا پسینہ ہے ہم اس کو خوشبو میں ملائیں گے۔آپ کا یہ پسینہ تمام خوشبوؤں سے زیادہ خوشبودار ہے“(صحیح مسلم)حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ،حضورﷺ کی آواز کے حسن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”میں نے حضور ﷺکو نماز عشاء میں سورۂ والتین والزیتون پڑھتے ہوئے سنا۔میں نے حضور ﷺ کی آواز سے زیادہ اچھی آواز کسی کی نہیں سنی“(صحیح مسلم)حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں: ”میں جب حضور انورﷺکے رخ انور کی زیارت کرتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے آپ نے سرمہ لگارکھا ہے حالانکہ آپ نے سرمہ استعمال نہیں کیا ہوتا تھا“(جا مع الترمذی)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں نبی کریمﷺ کے مرضِ وِصال کے زمانے میں ہم حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے کہ اچانک نبی کریمﷺ نے اپنے حجرہ مبارکہ کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھاتو ہمیں یوں محسوس ہوا:گویا کہ آپ کا چہرہ انور قرآن مجید کا ورق ہے“ (بخاری:680) عبداللہ بن سلام یہودیوں کے بڑے عالم تھے، تورات پر عبور حاصل تھا، وہ اپنے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب رسول کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں آپ کی تشریف آوری کی خبر سنتے ہی آپ کو دیکھنے کے لیے حاضر ہوا، میری نگاہ جونہی آپﷺ کے چہرہ انور پر پڑی تو میں نے جان لیا کہ ایسا دلکش ودلربا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا (ترمذی: 2485)حضرت حارثؓ بن عَمرو سہمی بیان کرتے ہیں:میں منٰی یا عرفات کے مقام پرنبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں لوگوں کو آپﷺ کی زیارت کے لیے جوق درجوق آتے ہوئے دیکھ رہا تھا، میں نے مشاہدہ کیا کہ بدو جب آپﷺ کے رُخِ انور کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے“ (ابوداؤد:1742)نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت کو اختیار نہیں کرسکتا“ (بخاری:2568) اللہ تعالیٰ ہم سب کونبی کریم ﷺکے اسوہئ حسنہ پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین