میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کرپشن کے سنگین الزامات،وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے!

کرپشن کے سنگین الزامات،وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۷ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭فوادحسن فوادکی مبینہ کرپشن کاانکشاف راولپنڈی کی وکلاء برادری نے اسلام آبادہائیکورٹ میں دائردرخواست میں کیا
٭مہنگے ترین کمرشل علاقے میں 12 ارب روپے سے زیادہ مالیت کی عمارت کی تعمیر پر نیب کی چشم پوشی
٭ مروجہ پے اسکیل کے تحت گریڈ 21 کے افسر کی اتنی تنخواہ نہیں کہ وہ 12 ؍ارب روپے مالیت کی عمارت تعمیر کراسکے (وکلاء)
ایچ اے نقوی
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے بعد اب ان کے ذاتی عملے کے ارکان پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں ، اور عوامی حلقوں کی جانب سے اب برملا یہ الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے ذاتی عملے کے ارکان وزیر اعظم سے قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپے کی کرپشن اور ہیر پھیر میں ملوث ہیں اور وزیر اعظم کے ذاتی عملے میں شمار ہونے کی وجہ سے اینٹی کرپشن، ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو کے موقع پرست حکام نے ان کی کرپشن کی جانب سے آنکھیں بند کرکے انھیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھنے کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔
وزیراعظم کے ذاتی عملے کی کرپشن کی تازہ ترین مثال ان کے پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے راولپنڈی میں تعمیر کرائی جانے والی اس کثیرالمنزلہ عمارت کی شکل میں سامنے آئی ہے جس کی مالیت کم وبیش 12 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی مبینہ کرپشن کاانکشاف راولپنڈی کی وکلابرادری نے کیاہے اور 3 وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب کو وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس بات کی تحقیقات کا حکم دیاجائے کہ فواد حسن فواد نے جو گریڈ 21 کے ایک سرکاری افسر ہیں، یہ عمارت کس طرح تعمیر کرائی اس کے لیے رقم کہاں سے اور کن ذرائع سے حاصل کی گئی؟کیونکہ حکومت کے مروجہ پے اسکیل کے تحت گریڈ 21 کے افسر کو اتنی تنخواہ نہیں ملتی کہ وہ 12 ارب روپے مالیت کی عمارت تعمیر کراسکے۔راولپنڈی کے 3 وکلا خرم محمود ، صابر احمد اورطفیل شہزاد نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں وزیر اعظم کے داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر، فواد حسن ان کے بھائی وقار حسن اور2 دیگر افراد گل زریں خان اور چوہدری قمر کو مدعاعلیہان نامزد کیاہے۔درخواست میں کہاگیاہے کہ راولپنڈی میں یہ خبریں تیزی سے گشت کررہی ہیں کہ وزیرا عظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے اپنے بھائی وقار حسن اور 2 دیگر افراد گل زریں خان اور چوہدری قمر کے ساتھ مل کر راولپنڈی کے کمرشل علاقے میں ایک کثیرالمنزلہ عمارت تعمیر کرائی ہے جس کی مالیت 12ارب روپے سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔درخواست میں بتایاگیاہے کہ اس 10 منزلہ عمارت کی 9 منزلیں مبینہ طورپر فواد حسن فواد اور ان کے بھائی کی ملکیت ہیں ۔درخواست میں یہ بھی کہاگیاہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے اپنے سیاسی منصب اور وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلق کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک بینک کو اس عمارت کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرنے پر مجبور کیا۔ راولپنڈی کے وکلاء نے اپنی درخواست میں اس حوالے سے اسٹیٹ بینک پاکستان کے قواعد وضوابط کا بھی حوالے دیاہے جس کے تحت کمرشل بینکوں پرعمارتوں اور پراجیکٹس کی تعمیر کے لیے سرمائے کی فراہمی کے حوالے سے سخت شرائط عاید کی گئی ہیں۔
وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی اس درخواست میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میں ایسی کسی دوسری عمارت یا پراجیکٹ نے اس طرح سے سرمایہ فراہم نہیں کیاہے جس سے واضح ہوتاہے کہ بینک کو سرمایہ فراہم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے مبینہ طورپر اختیارات اورسرکاری عہدے کاغلط استعمال کیاگیاجو کہ کرپشن کاایک بین ثبوت ہے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیاہے کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن نے راولپنڈی جی پی او کی عمارت کے بالمقابل اس عمارت کے لیے یہ کمرشل پلاٹ حیدر روڈ راولپنڈی پر واقع ایک رہائشی پلاٹ کے بدلے میں حاصل کیاہے جبکہ ان دونوںپلاٹوں کی قیمتوں میں زمین وآسمان کافرق بتایاجاتاہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد کے خلاف دائر کردہ رپورٹ میں استدعا کی گئی ہے کہ نیب کو ہدایت کی جائے کہ وہ اس پورے معاملے کی شفاف طریقے سے تحقیقات کرے اور عمارت کی تعمیر کے لیے حاصل کیے گئے وسائل کاپتہ چلانے کے ساتھ ہی اس بات کابھی سراغ لگائے کہ ایک معمولی رہائشی پلاٹ کے بدلے یہ قیمتی کمرشل پلاٹ کس طرح حاصل کیاگیا اور اس کے پس پشت کیا عوامل کارفرما ہیں؟درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ نیب سے یہ کہاجائے کہ وہ اس بات کابھی پتہ لگائے کہ پلاٹ کی اس منتقلی یا تبدیلی کے عمل میں متعلقہ افراد نے بذات خود یا اپنی اہلیہ یا خاندان کے کسی اور فرد کے نام سے سرکاری خزانے کوکوئی نقصان تو نہیں پہنچایا۔
وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد کے خلاف درخواست میں یہ بھی کہاگیاہے کہ فواد حسن فواد کو اوکاڑہ میں مبینہ طورپر تحفے میں ملنے والی زمین، سٹی پراجیکٹ میں ان کے شیئرز ،لاہور موٹر وے سٹی پراجیکٹ میں ان کے شیئرز اورسی این جی اسٹیشن کے حوالے سے اسپرنٹ انرجی اسکینڈل میں ان کے کردار کی بھی تحقیقات کرائی جائے تاکہ اختیارات اور سرکاری عہدے کے ناجائز استعمال کے حوالے سے شکایات کی حقیقت واضح ہوسکے۔
درخواست میں یہ موقف اختیار کیاگیاہے کہ ایک گریڈ 21 کے افسر کی جانب سے راولپنڈی کے مہنگے ترین کمرشل علاقے میں 12 ارب روپے سے زیادہ مالیت کی عمارت کی تعمیر پر نیب کی خاموشی اور اس معاملے سے چشم پوشی معنی خیز ہے اگر اس حوالے سے کوئی کارروائی نہ کی گئی تو تمام سرکاری افسران کو کھل کھیلنے کی ترغیب ملے گی اور اس معاملے میں نیب کی خاموشی سے تمام دیگر سرکاری افسران کو یہ پیغام جائے گاکہ پاکستان میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی ہر ایک کوکھلی چھوٹ حاصل ہے اوراس پر کسی طرح کی روک ٹوک کاکوئی امکان نہیں ہے۔
درخواست گزار کے وکلا نے یہ موقف اختیار کیاہے کہ اس معاملے میں نیب کی جانب سے مجرمانہ خاموشی سے یہ ثابت ہوتاہے کہ نیب صرف جونیئر اور چھوٹے درجے کے افسران اور حکومت کے معتوب افراداور اداروں کے خلاف ہی حرکت میں آتی ہے اور بااثر سرکاری افسران کو اس کی جانب سے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی کھلی چھوٹ ہے ،نیب کا یہ طرز عمل کسی طور بھی ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں ہے اورضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے اور سرکاری حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے دولت کے انبار جمع کرنے والوں کاسختی سے احتساب کیاجائے اور ان کی ناجائز ذرائع اور طریقہ کار کے تحت جمع کردہ تمام دولت ان سے واپس لے کر سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے ساتھ ہی اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں ملکی قانون کے تحت انھیں سخت سے سخت سزائیں دی جائیںاور ان کی تمام ناجائز دولت اور اثاثے بحق سرکار ضبط کرلیے جائیںاور انھیں فوری طورپر سرکاری عہدوں سے برطرف کرکے آئندہ انھیں کسی بھی سرکاری ملازمت کے لیے نااہل قرار دیاجائے تاکہ عہدوں کے ناجائز استعمال کایہ تسلسل اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار کاسلسلہ ختم ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں