حکومت نے اے پی سی کوناکام قراردیدیا
شیئر کریں
معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ اے پی سی دس گھنٹے جاری رہ کر ناکام ہوگئی ، حکومت کوگرانے کی باتیں کرنے والوں کی سوچ چیئر مین سینیٹ کوہٹانے پر آکر ختم ہوگئی ،اے پی سی اعلامیہ میں کرپشن کا لفظ نظر نہیں آیا ، اپوزیشن کی اے پی سی کھسیانی بولی کھمبا نوچے تھی ، بجٹ پاس نہ ہوا تو اپوزیشن ارکان کی دال روٹی بندہوجائیگی ۔ جواعلامیہ جاری کیا گیاہے اس سے اپوزیشن کی نالائقی اور تحریری بد تہذیبی سامنے آتی ہے ،منگل کو اپوزیشن کی اے پی سی کے اعلامیہ پر ردعمل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ کہ اے پی سی مسلسل دس گھنٹے جاری رہنے کے بعد ناکام ہو گئی۔ دس گھنٹے کی جدوجہد کے بعد اقتدار کا چاند دیکھنے کی خواہش تھی وہ بر نہ آئی اور ملک بھر سے بھر پور کوشش کے باوجود انہیں اقتدار کا چاند کہیں سے نظر نہ آیا۔ بالاخر یہ فیصلہ ہوا کہ تمام کمیٹی کے ممبران اپنے اپنے علاقائی مینڈیٹ پر اگلے چار سال تک اقتدار کا چاند جب تک طلوع نہیں ہوتا شکر و صبر کے ساتھ وہ اپنے اپنے علاقوں کے سیاسی پلیٹ فارم پر اسی طرح کام کریں گے ۔بارہ بجے سیاسی شو شروع ہوا کرتب دکھانے والے تمام سیاسی اداکار وہاں پہنچے ایک ایسا پتلی تماشا جو خواہشات کے تابع تھا۔ وہ چلتا رہا عوام یہ توقع کررہی تھی کہ جو آستین چڑھا چڑھا کر مسلسل حکومت کو گرانے دھمکانے گھر بھیجنے کی روزانہ نئی گرادن سنارہے تھے آج وہ آپس میں کسی ایک بیانیے پر متفق ہو جائیں گے ۔ مگر جاری اعلامیے کے اگر ایک ایک پوائنٹ کو دیکھا جائے تو پورے اعلامیہ میں ہر طرح کی ہدایات فرمودات فرامین اور مختلف قسم کے لیکچر کی صورت میں تمام ٹارگٹڈ ایجنڈے جھلک نظر آئے گی۔ایک لفظ جو پورے ایجنڈے میں کہیں نظر نہیں آئے گا وہ کرپشن کا لفظ ہے ۔ تمام سیاسی گرو جو وہاں بیٹھے تھے انہیںبجٹ کے اندر بھی بے تحاشا نظر آئے اداروں کے اندر بھی پورے نظام میں انہوں نے اتنی خامیاں تلاش کیں کہ ستر سال کا پاکستان کا غرضیکہ ہر چیز کا انہوں نے احاطہ کیا اگر نہیں کیا تو کرپشن کے لفظ کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کیا کہ وہ سرجوڑ کر سوچتے کہ اس ملک میں ایک وائرس بھی ہے جس کا نام کرپشن ہے اور اسے ختم کرنے کیلئے کوئی لائحہ عمل اختیار کریں۔ انہوں نے کہاکہ جو خود کرپشن کی پیداوار ہوں جن کی بقاء کرپشن سے جڑی ہو وہ کرپشن کے لفظ کونہ معیوب سمجھتے ہیں اور نہ اس کے تدارک کیلئے کوئی واضح حکمت عملی بناسکتے ہیں۔ اس اعلامیہ کو پڑھکر اس نتیجے پر پہنچی ہوںکہ حکومت کی انہوں نے جس انداز سے بھی تعریفیں کیں وہ اپنی جگہ مگر الیکشن کمیشن پر بھی عدم اعتماد کیا۔ الیکشن کو 10ماہ بعد دھاندلی قرار دینے کا انہیں اس وقت یاد آیا جب انہیں یقین ہوگیا کہ ادارے بااختیار ہوگئے ہیں ، پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی ہوگیء ہے اور احتساب کا شکنجہ ان کی گردنوں کے قریب آرہا ہے ۔ پھر 10ماہ بعد انہیں انتخابات میں نقائص نظر آنا شروع ہوئے یہ نقائص ان کو بھی نظر آناشروع ہوگئے جو پارلیمانی کمیٹی میں معنی خیز خاموشی اختیار کرتے رہے اور آج اے پی سی میں زبان درازی کی آج وہ اسی الیکشن کمیشن پر اعتراض کرتے رہے جو انہوںنے خود بنایا تھا۔ اے پی سی اعلامیے نے اپنے بنائے ہوئے الیکشن کمیشن پر عدم اطمینان کیا ۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا وزیر اعظم عمران خان کو عوام نے ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا ۔ حیرت ہے 10ماہ بعد اپوزیشن کو انتخابات میں دھاندلی نظر آنے لگی۔ اے پی سی اعلامیہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے ۔ معاون خصوصی نے کہاکہ دفاعی بجٹ ہر صورت پاس ہوگا کوئی منظوری سے نہیں روک سکتا ، گیدڑ بھبکیوں کی بجائے مثبت تجاویز لے کر آتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کا اقتدارسے دوری کا دکھ واضح نظر آرہا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔اے پی سی اعلامیہ پڑھ کر ہنسی آرہی ہے ۔ اعلامیہ میں گا، گے ، گی کا بے سود صیغہ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے ۔ اعلامیہ اپوزیشن کی نالائقی اور تحریری بدتمیزی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اے پی سی کا اعلامیہ اپوزیشن کا نوحہ پڑھا جاسکتا ہے ۔ بجٹ ضرور منظور ہوگا کیونکہ اس سے اپوزیشن ارکان کی دال روٹی جڑی ہوئی ہے ۔ رہبر کبھی چوری ڈکیتی اور منی لانڈرنگ سے قومی خزانہ نہیں لوٹتا۔ اپوزیشن کی مجوزہ رہبر کمیٹی میں99.9 فیصد لوگوں کے دامن داغدار ہیں کسی کی خواہشات کے تابع ہوکر ملک نہیں چلایا جاسکتا ، گمراہ ٹولہ ہرطرح کی سازشوں میں ناکام ہوگا ، اپوزیشن کے منفی ایجنڈے کو مسترد کرتے ہیں، سازشوں ، چور دروازوں ، آہ و بکا سے حکومت جانے والی نہیں ،ماضی کے حکمرانوں نے اداروں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اے پی سی کا اصل محرک انکوائری کمیشن تھا ۔ یہ پاکستان کے ادارے ہیں اورپاکستان کی ضرورت ہیں۔ آپ انکوائری کمیشن سے خوفزدہ ہیں۔ آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو انکوائری کمیشن کو خوش آمدید کہنا چاہیے ۔ انکوائری کمیشن سے فرار ان کے اصل کردار کی حقیقت ہے ، یوم سیاہ منانے کی تیاری اصل میں اپنی سیاہ کاریوں کوچھپانے کی کوشش ہے ۔ انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں ۔ ملکی اداروں کا تعلق کسی جماعت سے نہیں بلکہ ریاست سے ہے ۔