میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اقتصادی جائزہ رپورٹ ،حکومت کی ناکامیوں کا دستاویزی ثبوت

اقتصادی جائزہ رپورٹ ،حکومت کی ناکامیوں کا دستاویزی ثبوت

منتظم
هفته, ۲۷ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں


وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے گزشتہ روز معمول کے مطابق سالانہ بجٹ کے اعلان سے ایک دن قبل مالی سال 17-2016 ء کی اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کردی جس میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی۔خیال رہے کہ مالی سال 17-2016ء کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 5.7 فیصد مقرر کیا گیا تھا جو حاصل نہیں کیا جاسکا جبکہ اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں انڈسٹری کا حصہ 21 فیصد، زراعت 20 اور سروسز (خدمات) کا حصہ تقریباً 60 فیصد رہا۔رواں مالی سال کے دوران صنعتی شعبے کی شرح نمو 5.02 فیصد رہی جبکہ زراعت کی 3.46 اور سروسز کی شرح نمو 5.98 رہی جو گزشتہ 3 سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 10 برس میں پہلی بار شرح نمو 5.28 فیصد کی سطح پرآئی ہے تاہم انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ حکومت اور بین الاقوامی اداروں کے جائزوں کے مطابق پاکستان کی اقتصادی شرح نمو اب بھی کم ہے۔اسحق ڈار نے دعویٰ کیا کہ توانائی کی پیداوار میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے اور ترقی کی شرح 5 فیصد سے بڑھ گئی ہے اور تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرسے تجاوز کر گیا ہے۔اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ زرعی ترقی کی شرح میں وزیراعظم کے کسان پیکج نے اہم کردار ادا کیااور زراعت کے شعبے میں 3.46 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران گندم کی پیداوار 25.75 ملین ٹن رہی جبکہ کپاس کی پیداوار 10.7 ملین بیلز رہی، حالانکہ پاکستان کی اپنی ضرورت 14 ملین بیلز ہے۔گزشتہ برس گنے کی پیداوار 65.48 ملین ٹن تھی جو رواں برس 73.61 ملین ٹن رہی۔وزیر خزانہ نے دعویٰ کیاکہ حکومت نے بجٹ خسارہ 3.8 فیصد تک رکھنے کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا جو 3.7 فیصد رہا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ حکومت تجارتی خسارے کو 20.4 ارب روپے کی حد پر روکنے میں ناکام رہی اور اقتصادی جائزے میں شامل عرصے کے دوران تجارتی خسارہ 24 ارب روپے رہا۔وزیر خزانہ نے دعویٰ کیاکہ جولائی 2016ء سے اپریل 2017 ء تک مہنگائی کی شرح تسلی بخش رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3.86 فیصد جبکہ نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4.25 فیصد رہی۔ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7.25 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے جبکہ سال کے اختتام تک یہ جی ڈی پی کے 2.7 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔اسحق ڈار نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ایک ارب 730 ارب ڈالر رہی جبکہ سال کے اختتام تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2.58 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔رواں برس پبلک پرائیویٹ سرمایہ کاری کا کل حجم 5026 ارب روپے رہا۔بے روزگاری کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بتایا کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے، انہوں نے کہا کہ یہ 2015ء تک کے اعداد و شمار ہیں۔غربت کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ2014 ء کے اعداد و شمار کے مطابق 9.5 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔اسحق ڈار کے مطابق سالانہ فی کس آمدنی گزشتہ مالی سال 1333 ڈالر تھی جبکہ رواں مالی سال یہ 1629 ڈالر رہی۔انہوں نے کہا کہ رواں برس فی کس آمدنی میں 22 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ٹیکس ریونیو رواں برس 13.1 فیصد رہا۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ 2013ء میں ملکی قرضے 14318 ارب روپے تھے جبکہ مارچ 2017ء تک ملکی قرضے 20872 ارب روپے ہوگئے۔اسحاق ڈار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران بھی ملکی برآمدات اور درآمدات کے درمیان عدم توازن برقرار رہا اور جولائی 2016ء تا اپریل 2017 ء کے دوران ملکی درآمدات کا حجم 37.84 ارب ڈالر جبکہ برآمدات کا حجم 17.91 ارب ڈالر رہا۔انہوں نے کہا کہ سال کے آخر تک درآمدات 45.48 ارب ڈالر اور برآمدات کا حجم 21.76 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کی نظریں آئی ٹی ایکسپورٹس پر ہیں اور اس مقصد کے لیے ہم نے کوریا کے اشتراک سے اسلام آباد میں آئی ٹی پارک کا اعلان کیا ہے جبکہ کراچی اور لاہور میں بھی یہ ماڈل اپنایا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مالی سال 17-2016 ء کی اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کر تے ہوئے وہی باتیں دہرائی ہیں جو اب تک اپنی تقریروں میں کرتے رہے ہیں، اگرچہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ ملک میں غربت اور بیروزگاری کی شرح میں کمی ہوئی ہے اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہواہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کیاگیا ہے کہ پاکستان رواں مالی سال کے دوران اپنی ضرورت پوری کرنے کے قابل کپاس پیدا کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا، اوراس سال کپاس کی پیداوار 10.7 ملین بیلز رہی حالانکہ پاکستان کی اپنی ضرورت 14 ملین بیلز ہے یعنی پاکستان کو جو پوری دنیا کو اپنی کپاس برآمد کرتاتھا اور کپاس جس کی برآمدی آمدنی کا بڑا حصہ تھی اب خود اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کم وبیش 4ملین گانٹھ کپاس درآمد کرنا پڑے گی اور اس کے لیے بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا، جبکہ گنے کی پیداوار گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری حکومت کے پاس کاشتکاروں کے لیے کوئی واضح ہدایات موجود نہیں ہیں، ان کی رہنمائی کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے اور اس بات کا اندازہ لگانے والا کوئی ادارہ نہیں کہ ملک کو کس فصل کی زیادہ ضرورت ہوگی اور کس فصل کے خراب ہونے یا کم ہونے کی صورت میں حکومت کو زرمبادلہ کاکتنا بوجھ برداشت کرناپڑے گا۔اس صورت حال کو کسی بھی طرح اطمینان بخش قرار نہیں دیاجاسکتا۔
جہاں تک غربت میں کمی کے حوالے سے وزیر خزانہ کے دعوے کا تعلق ہے تو ایک طرف وزیر خزانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک میں غربت کی شرح میں کمی ہوئی ہے جبکہ حقائق اس سے کچھ الگ نظر آتے ہیں اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ ملک میں غربت کی شرح میں سالانہ نہیں بلکہ روزانہ کی شرح میں اضافہ ہورہاہے ، اور ملک میں امیر اور غریب کے درمیان تفاوت کی خلیج میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہاہے جس کے سامنے ابھی سے بند باندھنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ جن قابو سے باہر بھی ہوسکتاہے۔زراعت، صنعت، اور دیگر شعبوں کے بارے میں بھی حکومتی دعووں اور حقائق میں واضح فرق نظر آرہا ہے ،اس طرح وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بڑے فخر کے سا تھ جس اقتصادی جائزہ رپورٹ کی رونمائی کی ہے وہ دراصل حکومت کی ناکامیوں کا ایک ایسا دستاویزی ثبوت ہے جسے وہ چھپا نہیں سکتے۔
جہاں تک برآمدات میں کمی کا تعلق ہے تو اس پورے سال کے دوران ماہرین چیخ چیخ کر وزیر خزانہ کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہے ہیں لیکن حکومت نے ملک کی برآمدات کو سنبھالادینے اور غیر ضروری درآمدات پر قدغن لگانے پر توجہ دینا ہی مناسب نہیں سمجھا، جس کے نتیجے میں آج پاکستان کے بازار درآمد شدہ ایسی غیر ضروری اشیاجن میں شیمپو، بلیڈ، واشنگ پائوڈر، فیس پاؤڈر، پیمپرز، جوتے، ملبوسات ،بسکٹ ، ٹافیاں اور دیگر بے شمار اشیا شامل ہیں، جن کو درآمد نہ کیا جائے تو بھی عوام کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،جب تک حکومت اس صورتحال پر کنٹرول نہیں کرے گی، درآمدات وبرآمدات میں توازن قائم کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔توقع کی جاتی ہے کہ وزیر خزانہ اس طرف توجہ دیں گے اور اس طرح کی غیر ضروری اشیا درآمد کرنے کی اجازت دینے والے افسران واہلکاروں کے خلاف ملک کا قیمتی زرمبادلہ ضائع کرنے کے الزام میں مقدمات قائم کرکے اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کو عبرت کی تصویر بنادیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں