میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت کے ساتھ حکمران اشرافیہ کا رویہ معذرت خواہانہ کیوں ہے؟

بھارت کے ساتھ حکمران اشرافیہ کا رویہ معذرت خواہانہ کیوں ہے؟

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۷ اپریل ۲۰۲۵

شیئر کریں

مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22؍اپریل کو بھید بھرے اور پراسرار حملے کے بآلاخرچار روز بعد 26؍ اپریل کو وزیراعظم شہبازشریف کابھی ‘‘روایتی’’ ردِ عمل سامنے آگیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پانی ہماری لائف لائن ہے ، بھارت نے مہم جوئی کی تو 2019ء کی طرح منہ توڑ جواب ملے گا۔ ہم پہلگام واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کی ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے پاکستان سے زیادہ کسی کی قربانیاں نہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک کی طرف سے بغیرثبوت پاکستان پر الزام تراشی کی گئی۔ پاکستان پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے ’’۔سوال یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے نزدیک ‘‘پاکستان کی جانب سے پہلگام واقعے کی غیر جانب دارنہ تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار’’ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ وزیراعظم شہباز شریف تعاون کی یہ پیشکش کن معنوں میں کر رہے ہیں؟

وزیراعظم شہبازشریف نے اس اہم ترین معاملے میں چار روز کے بعد لب کشائی کی تو تعاون کی سیدھے ہی پیشکش کیوں کر ڈالی؟ یوں بھی شریف خاندان کے ہر فرد کے سینے میں بھارت سے محبت کا دودھ اُترتا رہتا ہے۔ شہبا زشریف کے بڑے بھائی سابق وزیراعظم نواز شریف دو روز قبل لندن سے واپسی کے لیے ایون فیلڈ سے نکلے تو اُن سے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر ردِ عمل مانگا گیا تو وہ مہر بہ لب رہے۔ جبکہ وہ ایک سے زائد دفعہ بھارت کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کے مشکوک ہونے کے شہبات کے تقویت کا باعث بنتے رہے ہیں اور ماضی میں بھارت سے تعلقات کے حوالے سے ایک آرمی چیف پر‘‘ پیٹھ میں چھراگھونپنے’’ کے الفاظ بھی استعمال کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ اُن کے کُنج لب سے کبھی بھارت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں پھوٹتا۔ اس ضمن میں اگر پاکستان کی سیاست میں ایک آدمی کے خلاف نفرت کے طوفان سے پیداہونے والے ‘‘ جبر’’ میں کسی ادارے کا ‘‘ادارتی حافظہ’’ کمزور پڑ چکا ہے تو اس کا کوئی بھی علاج نہیں۔ اب ایک طرف نوازشریف کی پراسرار خاموشی ہے تو دوسری طرف شہباز شریف کا رویہ ہے جنہوں نے خود اپنی طرف سے چار روز تک اس معاملے پر لب کشائی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔جبکہ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے ہر روز ہر عالمی دن سے لے کر معمولی سے معمولی آپریشن پر سیکورٹی فورسز کی پزیرائی کے بیانات گنتی سے آگے نکل کر وزن کے حساب سے نکلتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کو اب چار روز بعدپاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس پر گفتگو کا منصبی بوجھ اُٹھانا پڑا ہے تو اُنہوں نے ‘آؤ دیکھا نہ تاؤ’ اور سیدھے ہی یہ الفاظ کہے ہیں کہ ‘‘پاکستان پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے ’’۔ یہ واضح نہیں ہے کہ وزیراعظم نے یہ اعلان ریاستی اداروں سے کسی ‘‘مشاورت’’ کے ساتھ کیا ہے یا پھر یہ‘‘ وردان’’ ،دیوتاؤں نے سیدھے اُن کے قلب پر اُتارا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا کہ وزیراعظم کے منصب سے بھارت کو اس طرح کی پیشکش کی گئی ہو، اس سے قبل ایسی ہی پیشکش ممبئی میں 26؍نومبر 2008ء کے پراسرار حملوں پر بھی کی گئی تھی۔ بھارت کے اقتصادی دار الحکومت ممبئی میں ہونے والے حملوں میں تین دنوں تک حملہ آوروں نے پنچ ستارہ ہوٹلوں اور ریلوے اسٹیشن پر مسلسل حملے کیے، جس کے نتیجے میں 166افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔تب ہندوستان کے بلیک کیٹ کمانڈوز کی کارروائی میں مبینہ پاکستانی شہری‘‘ عامر اجمل قصاب’’ کو وقوعے سے ‘‘برآمد’’ کیا گیا تھا۔ مگر عامر اجمل قصاب کے متعلق بعد میں سامنے آنے والے بہت سے حقائق اُس کے کردار کو مشکوک ٹہرانے کا باعث بنے تھے اور ان حملون کے تانے بانے بھارت کے ایک ‘‘اندرونی کھیل’’ کی چغلی کھانے لگے تھے ۔

یاد کیجیے!26؍نومبر 2008ء کے اُن پراسرار حملوں کے ایک روز بعد تب کے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک روز بعد اپنے عوام سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ‘‘ ممبئی کے حملوں کی سازش کرنے والوں کے ٹھکانے ملک سے باہر ہیں’’۔بھارت کا یہ موقف روایتی ہے، اس کا تعلق کسی مودی یا من موہن سنگھ سے نہیں یہ بی جے پی یا کانگریس کے فرق سے بدلتا نہیں۔ اس موقف کو تقویت دینے کے لیے بھارت نے ہرطرح کی ‘‘سرمایہ کاری’’ ہر سطح پر کررکھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان نے اپنے ازلی دشمن اور روایتی حریف کے حوالے سے بنیادی ذہانت کا مظاہرہ بھی نہیں کرپاتا۔ چنانچہ تب کے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی پروپیگنڈے کے دباؤ یا‘‘ نامعلوم مصلحتوں’’ کے باعث حملے کے دوروز بعد اور بھارتی وزیراعظم کے خطاب کے ایک روز بعد ڈی جی آئی آیس آئی کو ممبئی حملے کی تفتیش میں مدد دینے کے لیے بھارت بھیجنے کی ہامی بھر لی تھی۔ پاکستان کی حکمرانہ اشرافیہ معلوم نہیں کہ جسم کے کس حصے سے سوچتی ہے اور اُس پر ایسے اقدامات کا‘‘ شعور’’ نامعلوم کہاں سے نازل ہوتا ہے؟یہ حرکتیں ہم اس کے باوجود کر رہے تھے کہ اجمل قصاب کے حملے سے پہلے ہی بھارت کی تحویل میں ہونے کے اشارے موجود تھے۔ اور دہشت گردی کے ان واقعات کے پہلے چار گھنٹے کے دوران انسداد دہشت گردی کے سربراہ ہیمنت کرکرے پراسرار طور پر ہلاک کر دیے گئے تھے، جو اس سے پہلے بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل سرکانت پرساد کے خلاف بھارت کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہے تھے ۔اور کسی بھی طرح سے وہ اس تحقیقات کے ہوش ربا نتائج کو سامنے لانے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ خود بھارت کے ذرائع ابلاغ ان تحقیقات کو بھارت کے دہشت گردی کے واقعات کو بھارت کی جناب سے منظم کرنے کی نشاندہی کرنے لگے تھے۔ ہیمنت کرکرے کی تحقیقات بھارت کی جانب سے‘‘ فالس فلیگ آپریشن’’ کی نقاب کشائی کا باعث بن رہی تھیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی اب لجاجت ، خجالت کے تاریخی کردار کو نبھاتے ہوئے ‘‘تعاون کی پیشکش’’ کردی ہے۔ جبکہ عملاً اُن کی موجودہ ناقص سیاسی بندوبست میں فارم 47 کے ٹھپے کے باعث اہمیت یوسف رضا گیلانی جتنی بھی باقی نہیں رہ گئی۔ وہ کسی تعاون کی پیشکش کا تو کیا اس کے بارے میں سوچنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ سیاسی متن پر حاشیے میں بھی دکھائی نہ دینے والے وزیراعظم کی جانب سے اس طرح کی پیشکش انتہائی نوعیت کے خطرات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ہماری قومی سطح پر غور وفکر کرنے کی ادارتی سطح نہایت پست ہوتی جا رہی ہے۔اور ہم عملاً بونوں کی حکومت میں زندہ ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھارت کے اندرونی تضادات اور دہشت گردی کی سرکاری سرپرستی کے بے شمار واقعات وشواہد کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں پوری طرح ناکام ہے۔ جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا بھارت پاکستان کے اندردہشت گردی کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ یہاں سیاسی وسرکاری فیصلوں کے دھاروں کو بھی گمراہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔ بھارت اپنے اندرونی تضادات کے باعث مستقل مزاحمت کے خطرات سے دوچار ہے اور رہے گا۔ بھارت کے اندرمعاشرتی سطح پر برہمن سماج کے غلبے اورسیاسی سطح پر ہندوتوا سوچ میں خطے پر غلنے کی قدیم روایتی سوچ کے خلاف پائے جانے والی تحریکیں اس کے اندر ونی پیداوار ہے۔ اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مسائل بھارت کے اندرونی تضادات سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ بھارت سے آزادی کی تحریکیں کوئی واحد مسلمانوں کی تحریک نہیں۔ وہاں سکھ بھی آزادی مانگ رہے ہیں۔ نکسلائٹ تحریک بائیں بازو کے افکار رکھتی ہے۔ اسی طرح خود بھارت کے اندر دلت سوچ کے لوگ بھی انسانی شرف کے خلاف برہمن فکر سے نبرد آزما ہے اور خود کو ہندو برہمن سے الگ محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ بھارت کے اندرونی تضادات کے باعث وہاں موجود مختلف اور ان گنت آزادی پسند تحریکیں ہر سطح پر جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ جدوجہد ہر اعتبار سے جائز ہے مگر بھارت اِسے کچلنے کے لیے عالمی سطح پر‘‘ دہشت گردی’’ کی روایتی اصطلاح کا استعمال اس طرح کر رہا ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنی ضرورت کے اعتبار سے دہشت گردی کے مختلف واقعات کا تھیٹر سجاتار ہتا ہے ، دوسری طرف آزادی پسند تحریکیں بھی اپنی جدوجہد کے مختلف مراحل میں کچھ واقعات کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں جو بھی واقعات سامنے آتے ہیں۔ بھارت اس کا بھرپور فائدہ پاکستان کے خلاف اُٹھاتا ہے۔ وہ روایتی طور پر بلاتاخیر دہشت گردی کے ڈانڈے سرحد پار سے جوڑتا ہے۔ پہلگام واقعے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ وقوعہ پولیس اسٹیشن سے 6کلومیٹر دور تھا، حملہ 14:20پر ختم ہوا جبکہ چھ کلومیٹر دور اسٹیشن پر صرف دس منٹ کے اندر ہی مقدمہ درج کرکے نامعلوم سرحد پار دہشت گرد نامزد کر دیے گئے۔ ایسے حملوں کے اگر ثبوت بھی موجود ہوں ، حملہ آور وں کی ویڈیوز بھی موجود ہوں ، تب بھی اسے جانچنے کے لیے بھی کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہاں کوئی ثبوت بھی موجود نہیں اور صرف دس منٹ میں چھ کلومیٹر دور جاکر مقدمہ درج کرالیا گیا جس میں الزام بھی لگا دیا گیا۔ اتنی تیزی سے تو اے آئی ذہانت بھی بروئے کار نہیں آسکتی جو مودی کے جادو گر ذہن سے سامنے آرہی ہے۔ ایک طرف ایف آئی آر کہتی ہے کہ مبینہ دہشت گردوں کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جبکہ انڈین گورنمنٹ اور میڈیا اسے ٹارگٹڈ کلنگ باور کرا رہا ہے۔یہ اور اس قسم کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سفاکانہ کھیل بھارت مستقل طور پر اپنائے ہوئے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی جانب سے تعاون کی پیشکش کا روایتی راگ سامنے آجاتا ہے۔ جس سے بھارت کے خلاف ایک بلند آہنگ ،ابہام سے پاک ، دوٹوک اور مضبوط موقف قائم کرنے میں ہرگز مدد نہیں ملتی۔ سوال یہ ہے کہ ہم بھارت کے اندرونی تضادات اور وہاں موجود تحریکوں سمیت مزاحمت کی مختلف روایتوں کو عالمی سطح پر سمجھانے میں ناکام کیوں ہو رہے ہیں؟ بھارت ایک ہی طرح کا راگ الاپتا ہے یہ بات شواہد کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیوں نہیں کرتے۔ بھارت میں دہشت گردی کے مختلف واقعات پر ایک ہی طرح کے الزامات جب غلط ثابت ہوتے گئے تو یہ واقعا ت ٹائم لائن کے ساتھ دنیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کیے جاتے؟اگر ہمیں یہ سب کچھ نہیں کرنا اور تعاون کی پیشکشیں ہی کرنا ہے تو وزیراعظم شہبازشریف سے عاجزانہ اورمودبانہ درخواست ہے کہ ایسا موقف اختیار کرنے سے بہتر تھا کہ چار روز تو وہ یوں بھی خاموش رہے، آگے بھی خاموش ہی رہتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں