سندھ ہائیکورٹ نے ڈی ایچ اے،کلفٹن میں پانی فراہمی کی تفصیلات مانگ لیں
شیئر کریں
سندھ ہائیکورٹ نے ڈی ایچ اے اور کلفٹن کے مکینوں کو پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے پانی کے معاہدے کی تفصیلات طلب کرلیں۔جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ڈی ایچ اے اور کلفٹن کے مکینوں کو پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ کراچی میں 6 کنٹونمنٹ بورڈ ہیں 5 کنٹونمنٹ بورڈز میں مکمل پانی آرہا ہے۔ صرف کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے میں پانی نہیں آرہا ہے۔جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ ڈی ایچ اے کو بنے 40 سال ہوگئے ہیں اپنے رہائشیوں کو پانی تک نہیں دے سکا ہے۔ پہلے ڈی ایچ اے سوسائٹی تھا اب اتھارٹی بنے بھی 30 سال ہوچکے ہیں۔ ڈی ایچ اے کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے شہر میں مافیاز آپریٹ کر رہے ہیں لوگوں کی چاندی ہو رہی ہے۔کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل نے موقف دیا کہ 2016 میں ڈی ایچ اے میں 9 ایم جی ڈی پانی مل رہا تھا اور اب ڈی ایچ اے میں 2 ایم جی ڈی سے زائد پانی مل رہا ہے۔ ڈی ایچ اے اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کو 16 ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہے۔ لائن لائسز بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ پانی کی گزر گاہوں پر کچی آبادیاں بن چکی ہیں وہ بھی پانی چوری کرتے ہیں۔ ٹینکرز والے بھی وہی پانی لیتے ہیں یہی تو لائن لائسسز ہے۔ شہر میں پانی اور بجلی کی اتنی کمی نہیں ہے جتنی بتائی جاتی ہے۔ ساری کمی نیتوں کی خرابی کی ہے جن کا جو کام ہے وہ کرتے نہیں ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ پانی زمین پی جاتی ہے یا آسمان نگل جاتا ہے۔جسٹس عقیل احمد نے ریمارکس دیے کہ پانی کا بیشتر حصہ ٹینکرز مافیاز کو جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے عرصے میں ڈی ایچ اے اپنے رہائشیوں کو پانی کیوں فراہم نہیں کرسکا ہے۔ لگتا ہے ڈی ایچ اے کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے۔ جہاں دل کرتا ہے زمین کاٹ کر پلاٹ بنا دیتے ہیں۔ بارشوں کے دوران گھروں میں پانی بھر جاتا ہے نالے بھی بھرے ہوتے ہیں مگر ہم ان چیزوں میں نہیں جارہے ہیں۔عدالت نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے پانی کے معاہدے کی تفصیلات طلب کرلیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے واٹر بورڈ کا کتنا پانی فراہم کرنے کا معاہدہ ہوا تھا اور کتنا فراہم کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے 30 مئی کو فریقین سے رپورٹ طلب کرلی۔