میئر کراچی اختیارات کا رونا چھوڑ کر دستیاب وسائل اور اختیارات کے ذریعہ عوام کی خدمت کریں
شیئر کریں
میئر کراچی وسیم اختر نے گزشتہ روز دعویٰ کیاہے کہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کی بہتری، شہر میں تجاوزات کا خاتمہ اور کراچی میں سرسبز مقامات بالخصوص باغ ابن قاسم کی بحالی ان کی اولین ترجیحات ہیں۔میئر کراچی نے اس عہدکا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ صوبائی اختیارات حاصل کریں گے اور سندھ حکومت کی جانب سے کے ایم سی کے اختیارات پر قبضے کے نتیجے میں شہر کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کریں گے۔کے ایم سی عمارت میں واقع اپنے دفتر میںایک انگریزی اخبار کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے وسیم اخترنے دعویٰ کیاکہ وہ شہر قائد کے سب سے بڑے اور سرسبز باغ کی رونقیں دوبارہ بحال کریں گے جو ایک دور میں تفریح کی غرض سے آنے والے سیکڑوں افراد کیتفرےح گاہ ہوا کرتا تھا۔
باغ ابن قاسم کے حوالے سے انہوں نے ایک دفعہ پھر یہ واضح کردیا کہ بحریہ ٹاو¿ن کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس معاملے پر کسی غیر عدالتی تصفیے کی گنجائش نہیںہے،باغ ابن قاسم کی ابتر صورتحال پر بات کرتے ہوئے میئر کراچی نے ایک دفعہ پھر فنڈز کی عدم دستیابی کا شکوہ کیا اور کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ فنڈز کی عدم دستیابی کا ہے ‘مجھے دوسرے فنڈز اس کام کے لیے استعمال کرنے پڑتے ہیں لیکن ان ذرائع سے بھی صرف 40 ملین روپے اکٹھے ہو پائے ہیں، جو کچھ بھی نہیں ہیں، اس رقم سے ہم ایسی موٹریں نصب کررہے ہیں جن کے ذریعے استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کرکے باغ کی آبیاری کی جاسکے کیونکہ اب وہاں کچھ بھی موجود نہیں، یہاں تک کہ پائپ بھی’۔
وسیم اختر کا اصرار ہے کہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد بلدیہ کراچی کے معاملات درست کرنا شروع کردیے ہیں ، افسران کو وقت کا پابند بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی 168 ‘گھوسٹ’ سٹی وارڈنز کو معطل کیا تاکہ ان کی تنخواہ کی مد میں جانے والے لاکھوں روپے بچا ئے جاسکیں’۔ میئر کراچی کو یہ بھی شکوہ ہے کہ ان کے پاس بہت کم محکمے ہیں جن کے ذریعے وہ کے ایم سی کو رواں دواں رکھنے کے لیے فنڈز حاصل کرسکیں، وہ محکمے جہاں وہ واقعی کام کرسکتے ہیں وہ ان کے پاس نہیں ہیں، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سولڈ ویسٹ، بلڈنگ کنٹرول سمیت ماسٹر پلان کے محکمے سندھ حکومت کے اختیار میں ہیں۔جب وسیم اختر سے یہ سوال کیا گیا کہ میئر کا دفتر سنبھالنے کے بعد انہوں نے مارچ 2016 ءمیں کے ایم سی اور بحریہ ٹاو¿ن میں ہونے والے معاہدے کو ختم کیوں نہیں کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاہدے سے آگاہ نہیں تھے۔
ایم کیو ایم کے پرتشدد ماضی کے بعد سیاسی جماعت پر عوام کے اعتماد سے متعلق ایک سوال پر میئر کراچی کا کہنا تھا کہ ‘میں جانتا ہوں یہ سوال درست ہے اور عوام کی سوچ میں تبدیلی لانے کے لیے مزید کچھ وقت درکار ہوگا، لوگ جب ہمارا کام دیکھیں گے تو ان کی سوچ تبدیل ہوگی، مثال کے طور پر باغ ابن قاسم کی بہتری، نہر خیام کی بحالی، اس کے علاوہ ہمارا ردعمل، ہمارے ورکرز کا ردعمل اس سوچ میں بہتری لائے گا’۔ مجھے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ کراچی کے عوام کا ساتھ ہے۔
کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے میئر کراچی کے خیالات سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا لیکن اس حوالے سے ہر مرحلے پر ان کی جانب سے فنڈز کا رونا ان کے دعووں کی شفافیت پر سوال کھڑے کرتاہے، سوال یہ ہے کہ اگر وسیم اختر کا یہ دعویٰ تسلیم کرلیا جائے کہ انہوں نے مختلف ذرائع سے 40ملین روپے اکٹھے کرلیے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ یہ رقم اس شہر کے لوگوں کو صاف ہوا میں سانس لینے کی سہولت دینے کے لیے کچرے کے ڈھیر اٹھانے اور ابلتے ہوئے گٹر صاف کرنے پر لگانے سے گریزاں کیوں ہیں ؟وہ اس شہر کے لوگوں کو ا س شدید گرمی کے موسم میں پانی کی بلاتعطل فراہمی پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟جہاںتک ان کایہ کہناہے کہ انہوں نے میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 168 ‘گھوسٹ’ سٹی وارڈنز کی خدمات کو معطل کیا تاکہ ان کی تنخواہ کی مد میں جانے والے لاکھوں روپے بچا سکیں تو سوال یہ ہے کہ ان گھوسٹ سٹی وارڈنز کو بھرتی کس نے کیاتھا ، کیا ان کو ایم کیو ایم جو اب ایم کیو ایم پاکستان بن چکی ہے، کے عہدیداروں اور خود ان کے قریبی رفقا کی سفارش پر بھرتی نہیں کیا گیاتھا اور کیا ان کو بھرتی کیے جانے کے بعد اصل مقام پر ڈیوٹی دینے کے بجائے 90کے دروازے کھولنے اور ایم کیو ایم کے اس دور کے مہمانوں کی خاطر مدارات کی خدمات انجام دینے پر نہیں لگا دیا گیاتھا،کیا وسیم اختر اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ تمام تر آپریشنز کے باوجود اب بھی کے ایم سی کے متعدد افسران اور اہلکار صرف اس وجہ سے بروقت ڈیوٹی پر نہیں آتے اور صرف حاضری لگا کر گھروں کو چلے جاتے ہیں ،کیونکہ ایم کیو ایم کے بعد اعلیٰ رہنما ان کی پشت پناہی کرتے ہیں؟
میئر وسیم اختر نے اپنے بیان میں خود ہی یہ ظاہر کردیاہے کہ وہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ،سالڈ ویسٹ ،بلڈنگ کنٹرول اور ماسٹر پلان جیسے محکموں کا اختیار صرف اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ یہ محکمے جائز وناجائز آمدنی کا اتنا بڑا ذریعہ ہیں کہ انہیں سونے کی کان تصور کیا جاتاہے۔باغ ابن قاسم کے بارے میں اپنے اعتراض کا اصل سبب بھی انہوں نے یہ کہہ کر واضح کردیا ہے کہ باغ ابن قاسم کی بہتری کے نام پر انہیں سندھ کی حکومت سے بھاری فنڈز ملنے کی توقع ہے اور وہ یہ فنڈز اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرسکیں گے ، اگر وسیم اختر اورایم کیو ایم میں موجود ان کے دیگر ساتھی رہنماﺅں کو شہر کے پارکوں اورکھیل کے میدانوں سے اتنی زیادہ محبت ہوتی تو ان کے دور میں پارکوں کو بیوہ کے باغ کی طرح ٹکڑیوں میں کاٹ کر فروخت نہ کیاجاتا،اور ان کے دورمیں پارکوںاور کھیل کے میدانوں کا اتنا برا حال نہ ہوتا کہ ان کو کسی کے حوالے کرنے کی ضرورت پیش آتی، کیا وسیم اختر اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ جب بلدیہ کراچی پر ان کی جماعت کی مکمل اور بلاشرکت غیر ے کنٹرول تھا تو انہوں نے صدر میں واقع تاریخی جہانگیر پارک کا کیا حشر کیاتھا اور کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ جہانگیر پارک میںجنگلہ توڑ کر منی بسوںکو کھڑا کرنے کے عوض جو رقم وصول کرتے تھے وہ کہاں کہاں اور کس کس کی جیب میں جاتی تھی۔
میئر کاعہدہ سنبھالنے کے بعد آج اختیارات اور فنڈز کی کمی کارونا رونے والے وسیم اختر کی اپنی پارٹی نے اپنے دور میں مخالف پارٹیوں کے کونسلروں کو کتنے ترقیاتی فنڈز جاری کیے اور کن مشکلات کے بعد یہ فنڈز انہیں دےے گئے، میئر وسیم اختر کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اختیارات نہ ملنے اور فنڈز کی کمی کارونا روکر اس شہر کے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوششیں ترک کرکے دستیاب وسائل اور اخیتارات کو درست طورپر استعمال کرتے ہوئے اس شہر کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں ،شہر کو کچرے سے پاک کریں، ابلتے ہوئے گٹر صاف کرانے اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت کرانے پر توجہ دیں۔ محض اختیارات کارونا رو کر اب وہ نہ تو اس شہر کے عوام کو بیوقوف بناسکتے ہیں اور نہ اس طرح کی باتوں سے اگلے الیکشن میں انہیں کوئی فائدہ ہوسکتاہے۔موجودہ اختیارات میں رہتے ہوئے دستیاب وسائل کے ذریعے اگر وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یقیناً انہیں عوامی سطح پر کچھ پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے اور شاید اس شہر کے عوام ان کی سابقہ زیادتیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کو اور ان کی پارٹی کے بعض ارکان کو دوبارہ منتخب کرنے پر تیار ہوجائیں۔
جہاں تک پارکوں کا سوال ہے تو اگر نجی شعبے کے اشتراک سے ان پارکوں کی حالت بہتر بنائی جاسکتی ہے اور اس شہر کے لوگوں کو تفریح کی کوئی سہولت مل جاتی ہے تو اس پر انہیں دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے ۔ جہاں تک میئر کراچی کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کاتعلق ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کی انتظامیہ نے کوٹھاری پریڈ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے تو اس الزام کی غیر جانبدارانہ اورشفاف انداز میں تحقیقات کرائی جانی چاہیے اور اس تفتیشی ٹیم میں میئر کراچی کو شریک کیاجانا چاہئے تاکہ وہ بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرسکیں اور اس کی بنیاد پر متعلقہ سرکاری افسران اور بحریہ ٹاﺅن کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جاسکے اور انھیں کوٹھاری پریڈ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے پر مجبور کیاجاسکے۔