
غزہ کی بحالی کے لیے ٹرمپ کا احمقانہ منصوبہ
شیئر کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور غزہ پر قبضے کے حوالے سے جو پھلجھڑی چھوڑی تھی اگرچہ پوری دنیا نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اس خیال کو ہی سرے سے مسترد کر دیا ہے،
لیکن مغربی اور عرب دنیا میں اس کی بازگشت اب بھی موجود ہے اور ٹرمپ کی اس بے تکی تجویز کے بعد پوری دنیا میں ٹرمپ کی پیش کردہ تجویز اس وقت خاصی زیرِ بحث ہے اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے منفرد تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہواہے کہ ٹرمپ نے غزہ سے متعلق کوئی غیرمعمولی تجویز دی ہوبلکہ اس طرح کی تجویز کا بار بار ذکر کرکے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ان تجاویز کے بارے میں سنجیدہ ہیں،اور وہ اس مسئلے کے کسی ‘آؤٹ آف دی باکس’ حل کی کوشش میں مسلسل مصروف ہیں۔
غزہ کے بارے میں اپنی تجویز پر ٹرمپ کے اصرار کے باوجود پوری دنیا کے مبصرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ غزہ کے عوام کو بے گھر اور دربدر کرکے ان کی سرزمین پر اس طرح قبضہ کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔
ٹرمپ کی یہ تجویز اسرائیل اور فلسطینیوں کے بارے میں امریکہ کے مؤقف میں سب سے زیادہ بنیادی تبدیلی کے مترادف ہے اور پوری دنیا اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتی ہے۔ جس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل (یو ایس اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پال اوبرائن کا کہناہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ان کی قوم کو مٹانے کے مترادف ہے۔
آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے ٹرمپ کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا کہ آسٹریلوی حکومت دو طرفہ بنیادوں پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔ امریکی سینیٹر کرس مرفی نے اس بیان کو ‘برا اور گھٹیا مذاق’ قرار دیا، انہوں نے لکھا کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ ٹرمپ اپنے حواس کھو چکا ہے۔
غزہ پر امریکی حملہ ہزاروں امریکی فوجیوں کے قتل عام اور مشرق وسطیٰ میں دہائیوں تک جنگ کا سبب بنے گا۔ڈیموکریٹک امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے کہا کہ ٹرمپ کی 20 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلنے اور ضرورت پڑنے پر طاقت کے ذریعے ملکیت لینے کی تجویز ایک اور نام سے نسل کشی کرنا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے اپنی اس تجویز پر اصرار اور پوری دنیا کی جانب سے اس کو مسترد کئے جانے کے بعد اب مصر سمیت متعدد عرب ممالک تباہ حال غزہ کی تعمیرنو کے متبادل منصوبوں یا تجاویزپر کام کر رہے ہیں۔
ان کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر غزہ میں ان کے قیام کو یقینی بنانا اور غزہ کی پٹی میں ایسا حکومتی نظام قائم کرنا ہے جس میں حماس کا کوئی کردار نہ ہو۔ تاہم عام طورپر خیال کیا جاتا ہے کہ ان منصوبوں کی بنیاد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر رکھی گئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے مصر، اردن یا کسی اور ملک میں منتقل کیا جائے تاکہ غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکے اور اس علاقے کو مشرق وسطی کا ‘مثالی علاقہ’ بنایا جا سکے۔
اطلاعات کے مطابق مصر اور عرب ممالک اب تک چار مجوزہ منصوبے تیار کرچکے ہیں، لیکن مصر کا منصوبہ عرب دنیا میں ٹرمپ کے منصوبے کا متبادل سمجھا جا رہا ہے۔ قاہرہ میں اس منصوبے کی تکنیکی تفصیلات پر کام جاری ہے۔ اس کے تحت غزہ کا ملبہ ہٹایا جائے گا اور پھر اس کی تعمیر نو کی جائے گی۔
مصر کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں امریکی انتظامیہ کی معاونت حاصل ہو گی، اور اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی اس میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اب مصر اردن اور سعودی عرب کے ساتھ مشاورت کر رہا ہے تاکہ اس منصوبے کو حتمی شکل دی جا سکے۔
مصر کے منصوبے کے تحت غزہ کو 3 حصوں میں تقسیم کر کے اس کی تعمیر نو کی جائے گی۔ ہر حصے میں 20 بڑے کیمپ ہوں گے جہاں پانی، بجلی، اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں گی۔ اس منصوبے کے تحت موبائل گھر اور خیمے متعارف کرائے جائیں گے تاکہ غزہ کے عوام کو6ماہ تک رہائش فراہم کی جا سکے۔
بین الاقوامی امداد سے تعمیر نو کے لیے درکار سامان اور مواد غزہ تک پہنچایا جائے گا۔ اس عمل میں عرب ممالک اور بین الاقوامی ادارے مالی امداد فراہم کریں گے۔مصر کے منصوبے میں ایک بفر زون بنانے کی تجویز بھی ہے تاکہ اسرائیل کو یقین دہانی کرائی جا سکے کہ غزہ سے مستقبل میں کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد غزہ کے مسلح گروہوں، بشمول حماس، کو غیر مسلح کیا جائے گا اور غزہ کی پٹی کا انتظام چلانے کے لیے ایک فلسطینی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں اس حوالے سے سعودی عرب میں جی سی سی رہنماؤں، مصری صدر اور شاہ اردن کے درمیان ہونے والا ایک اجلاس بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوا، تاہم اس ملاقات کو خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس اجلاس میں خطے اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا، خاص طور پر غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک متبادل منصوبے پر غور کیا گیا ۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں واقع کم وبیش 90 فیصد گھر تباہ ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں۔
ایک بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے حالیہ تخمینوں کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر 53 ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی، جو ایک بڑا مالی چیلنج ہے۔ اس حوالے سے مصر نے3 مراحل پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس میں ابتدائی چھ6 ماہ میں ملبہ ہٹانا، دوسرے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی، اور تیسرے مرحلے میں2ریاستی حل کے نفاذ پر غور کیا جائے گا۔
سعودی ذرائع کے مطابق، اجلاس میں طے پانے والے نکات 4 مارچ کو ہونے والے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں پیش کیے جائیں گے تاکہ ایک متحدہ عرب موقف سامنے آ سکے۔ تاہم، اصل چیلنج اس منصوبے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی ہے، جس کے لیے عالمی برادری اور مسلم ممالک کو یکجا ہو کر فلسطینی عوام کی مدد کرنا ہوگی۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق، غزہ کے لاکھوں شہری جنگ بندی کے باوجود شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تنظیم کے صدر ایمی پوپ کے مطابق غزہ میں تباہی کا منظر ایسا ہے جو انسانی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ایک لاکھ60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، اور ہزاروں افراد تاحال لاپتا ہیں۔
امریکہ کی مسلسل حمایت نے اسرائیلی درندگی کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ اس صورتحال میں عرب قیادت کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی فلاح کے لیے ایک موثر اور پائیدار منصوبہ ترتیب دیں۔یہ اجلاس عرب دنیا کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کی مدد کے لیے متحدہ حکمت عملی اپنائے۔
سعودی عرب، مصر، اردن، قطر، بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات کو نہ صرف تعمیر نو کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہوگا بلکہ ایک مضبوط سفارتی اور مالی حکمت عملی بھی ترتیب دینی ہوگی۔ اگر عرب ممالک اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر امریکہ کے مقابلے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کر لیں، تو نہ صرف فلسطینی عوام کو درپیش مشکلات میں کمی آئے گی بلکہ خطے میں امریکی و اسرائیلی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے عرب ممالک کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ غزہ کی تعمیر نو محض ایک مالی منصوبہ نہیں بلکہ یہ فلسطینی عوام کے حقوق اور عرب قیادت کے کردار کا ایک اور اہم امتحان ہے،اور انھیں اپنا مستحکم وجود ثابت کرنے کیلئے اس امتحان میں ہر قیمت پر پورا اترنا ہے۔
جہاں تک حماس کا تعلق ہے تو حماس کے رہنما ماضی میں یہ بیان دے چکے ہیں کہ وہ اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں اور انھیں اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں وہ فلسطینی عوام کی بقا چاہتے ہیں اور ایک قومی کمیٹی کے سامنے غزہ کا انتظام چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ اس کے ارکان کے انتخاب میں ان کا بھی کردار ہو اور ان کی مرضی کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہ کی جائے۔
ٹرمپ نے بارہا فلسطینیوں کو غزہ سے کہیں اور منتقل کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ اس علاقے کو سیاحتی سرمایہ کاری کے لیے فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے مصر اور اردن کو یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر وہ فلسطینیوں کو قبول نہیں کریں گے تو امریکہ ان کی مالی امداد بند کر دے گا۔ لیکن ڈان پیری کے مطابق، ٹرمپ کا یہ منصوبہ دراصل عرب ممالک اور فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے کی ایک چال ہے تاکہ حماس کو اقتدار سے ہٹایا جا سکے اور فلسطینیوں کے قیام کے بدلے غزہ کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ کاری کا وعدہ کیا جائے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اب مصر اور سعودی عرب کے حکام اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے ایک مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی تجزیہ کار وں کے مطابق سعودی عرب غزہ کی حیثیت بحال کرنے اور غزہ کے عوام کو دربدر ہونے سے بچانے کیلئے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے سکتا ہے اور خطے میں اپنی اقتصادی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے چین، روس، یورپی یونین، افریقہ اور جنوبی افریقہ سے تعلقات بڑھا سکتا ہے۔
مصر نے حال ہی میں اسرائیل سے امن معاہدے کو منسوخ کرنے کا عندیہ دیا ہے، اور اگر ٹرمپ عرب منصوبے کو مسترد کرتے ہیں، تو یہ اقدام امریکہ کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔