میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکٹرانک میڈیا کی بلیک میلنگ کا کلاکوٹ تھانے میں مقدمہ درج !!

الیکٹرانک میڈیا کی بلیک میلنگ کا کلاکوٹ تھانے میں مقدمہ درج !!

ویب ڈیسک
پیر, ۲۷ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

نئے مقدمے میں اب تک نیوز اور ایچ ٹی کے کیمرہ مین کے نام سامنے آگئے،سنگین نوعیت کے واقعات میں اضافہ
میڈیاذمہ داران کے اختیارات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مساوی نہیں، انہیں ازخود کسی شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت کاحق نہیں
محمد فہد بلوچ
گزشتہ کچھ عرصے سے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے یہ شکایات عام ہوتی جارہی ہیں کہ یہ اپنی حدود سے نہ صرف تجاوز کررہا ہے بلکہ اس کے مختلف نمائندے بعض معامالات میں ”بلیک میلنگ“ کرتے ہوئے بھی پائے گئے۔ ان واقعات نے مجموعی طور پر صحافت کے دامن کو داغدار کیا ہے۔اس ضمن میں بلیک میلنگ کا ایک تازہ واقعہ سامنے آیاہے۔
اب تک نیوز اور ایچ ٹی وی کے نمائندوں نے بلیک میلنگ سے پیسہ اکٹھا کرنے کیلئے ایک مٹھائی کی دُکان کا رخ کیا ہے۔ جس پر مٹھائی کی دُکان کے مالک نے مقدمہ درج کرواکر دو بلیک میلروں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔کلاکوٹ پولیس نے بھی اب تک کے دو اور ایچ ٹی وی کے ایک ملازم پر بلیک میلنگ کا مقدمہ درج کیا ہے پولیس نے دو ملزمان ولید اور اقبال کو گرفتار کیا ہے جبکہ محسن اور ایک خاتون سمیت دو ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ کلاکوٹ پولیس کے مطابق چاکیواڑہ آٹھ چوک پر واقع پرنس سوئیٹ مارٹ پر سات سے آٹھ افراد ایک خاتون کے ہمراہ 21دسمبر کو آئے اور انہوں نے دُکان اور گودام کو چیک کرنے کے بہانے مووی بنائی، اور پھر اسی شام کو دُکان کے مالک خالد محمود سے ایک موبائل فون نمبرکے ذریعے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارا تعلق اب تک ٹی وی چینل کی چھاپہ مار پروگرام خفیہ کی ٹیم سے ہے اور تمہاری دُکان پر صفائی کا ناقص انتظام ہے تم اگر ہمیں دو لاکھ روپے دے دو تو ٹھیک ہے بصورت دیگر اب ہم فوڈ انسپکٹر کے ہمراہ آکر تمہاری دُکان سیل کر دیں گے ۔ دوسرے دن ان کا پھر فون آیا اورخالد محمود کو بلیک میل کرنے لگے جس پر خالد نے انہیں کہا کہ میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا ہوں پیسے کس بات کے دوں،کیس کے مدعی خالد کے مطابق اگلے دن دوپہر میں دو لڑکے اور آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ چلو دو لاکھ نہیں تم ہمیں 50 ہزار روپے دے دو جس پر میں نے انہیں باتوں میں لگا کر کلاکوٹ پولیس کو اطلاع دے دی اور کچھ ہی دیر میں پولیس موقع پر پہنچ گئی۔
کلاکوٹ پولیس کے ایس ایچ او ایاز خان کا کہنا ہے کہ ملزمان کےخلاف مقدمہ نمبر 282/2016 درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کب کاروائی کرے گی؟
اب تک ٹی وی کے پروگرام خفیہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت سا مواد موجود ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم کی ٹیموں نے کسی قسم کا نہ تو کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی کوئی مستعدی دکھائی جیسا کہ اب تک انتظامیہ کی جانب سے دی گئی درخواست پر اب تک ٹی وی کے سابق کیمرہ مین ساجد کو درخواست موصول ہونے کے دو گھنٹے بعد ہی ایف آئی اے کی ٹیم حراست میں لینے ساجدکے گھر پہنچ گئی تھی، حالانکہ ساجد کے حوالے سے اس کی گرفتاری کے بعد صحافتی تنظیموں نے فوری طور پر بھاگ دوڑ کرکے ڈائریکٹر ایف آئی اے عاصم قائم خانی سے سینئرصحافیوں نے ملاقات کرکے انہیں ساجد کی رہائی کے لیے کہا تھا اور انہوں نے وعدے کے مطابق رہا بھی کردیا تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے عاصم قائم خانی کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران اگر کیمرہ مین ساجد کے خلاف ثبوت اور شواہد نہ ملے تو اب تک ٹی وی کی انتظامیہ کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے گی،لیکن واقعے کے72گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک نیوز کے خلاف کوئی کارروائی یا انکوائری عمل میں نہیں لاجاسکی ہے۔
اینکرز اور پروگرامز کو نوٹس جاری کرنے والا پیمرا کہاں ہے؟
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے لیے پیمرا کے نام سے ایک نگراں ادارہ قائم ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف ان بے اعتدالیوں اور گستاخیوں کی نگرانی تک محدود ہے جن کا تعلق محض سیاست اور وقار کے امور سے ہے ۔ پیمرا نے حالیہ کچھ عرصے میں کئی اینکرز کو نوٹس جاری کیے اور بعض پرجرمانوں کے علاوہ محدود دورانیے کے لیے پابندی بھی لگائی ،لیکن حیرت ہے اس ادارے کو یہ چھاپہ مار پروگرام نظر نہیں آتے جہاں صرف ایسے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کے کسی طاقتور کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں۔ ان اینکرز کا زور کسی جعلی عامل یا نشے کے عادی پرتو چلتا ہے لیکن کسی بڑے نام والے ہوٹل ، گیسٹ ہاو¿س یا کارخانے پریوں چڑھ دوڑنے کا یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ان کی آزاد بلکہ آوارہ صحافت صرف معمولی سماجی حیثیت کے حامل بظاہر کمزور افراد کو نشانہ بناتی ہے۔ ایک سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھاپہ مار صحافت کی ابتدا تو پرنٹ میڈیا نے کی لیکن نجی ٹی وی چینلز نے جرائم کی تمثیل پر مبنی پروگراموں کے ذریعے اسے باقاعدہ دھندہ بنا لیا ہے ۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اکثر ٹی وی چینلز پر اس قسم کے پروگرام چل رہے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ان پروگراموں کے اسکرپٹ کے مطابق پولیس بھی اداکاری کرتی دکھائی دیتی ہے۔کسی بھی جگہ چھاپہ مار کر اس کی مکمل فوٹیج بنائی جاتی ہے ۔ کیمراشاٹس لیے جاتے ہیں۔ پھر پروڈکشن کے دوران اس ویڈیو کو مہارت سے جوڑ کر مکمل چٹپٹی فلم بنائی جاتی ہے ، جس کے پس منظر میں تیز قسم کا میوزک چلایا جاتا ہے ۔ کام کے مناظر جوڑ کر باقی کاٹ دیے جاتے ہیں ۔ پروگرام کا اینکر قدرے بلند اور ڈرامائی لہجے میں مناظر کے ساتھ ساتھ کہانی بیان کرتا ہے ۔کچھ ایسے شاٹس بھی شامل ہوتے ہیں جن میں اینکر کسی مبینہ ملزم سے دھاڑتے ہوئے پوچھتا ہے، تمہیں شرم نہیں آتی یہ کام کرتے ہوئے وغیرہ وغیرہ ۔ ان پروگراموں میں اینکرز اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ جرائم کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ یہ نہ تو ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور نہ ہی پروگرام کا مقصد ہوتا ہے ۔ ایسے مصالحہ مارکہ پروگراموں کا مقصد صرف اور صرف ریٹنگ کا حصول ہے ۔دوسری جانب اس نوع کے پروگراموں سے معاشرے میں جرائم سے متعلق حساسیت میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ جرائم کی تمثیل کاری سے آگاہی کے بجائے جرائم کے طریقوں کی تعلیم ہوتی ہے ، جو اچھی علامت نہیں ہے۔
پاکستان کا آئین عام آدمی کی ذاتی زندگی کے مکمل تحفظ کی ضمانت دیتا ہے
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کا آئین عام آدمی کی ذاتی زندگی (چادر وچار دیواری)کے مکمل تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9فردکی سلامتی سے متعلق ہے جس کے مطابق کسی شخص کو اس کی زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گاسوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے اور آئین کا آرٹیکل 14شرفِ انسانی اور گھر کی خلوت کے تحفظ کی بات کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شرف انسانی اور قانون کے تابع ، گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی۔ آئین کا آرٹیکل 34معاشرتی برائیو ں کے خاتمے کی بات کرتا ہے لیکن یہاںیہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنے والے افراد کے اختیارات قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قطعی مماثل یاان کے مساوی نہیں ہیں ۔ اس لیے انہیں ازخود کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت کاحق نہیں ہے۔
ثنا فیصل کو دیا گیا زہر حقیقت یاڈرامہ ؟
نجی نیوز چینل اب تک کے پروگرام خفیہ کی میزبان ثناءفیصل کو مبینہ طور پر ایک مداح لڑکے نے زہر دے دیاتھا۔ثنا ءفیصل 25ستمبر کی رات نارتھ ناظم آباد کے علاقے حیدری میں اپنے شوہر کے ساتھ آئس کریم کھانے گئی تھیں، جہاں ایک 14یا 15سال کے لڑکے نے آٹوگراف لینے کے بعد سیلفی کی خواہش کا اظہار کیا جسے ثنا نے مسترد کردیا۔کچھ دیر بعد وہ لڑکا دوبارہ آیا اور ثنا ءکو آئسکریم دینے پر اصرار کیا، کافی پس و پیش کے بعد ثنا ءنے مذکورہ فین سے آئسکریم لے کر کھائی، جس کے بعد ان کی حالت بگڑ گئی اور انہیں ضیا الدین ہسپتال منتقل کیا گیا۔بعد ازاں انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا۔ذرائع کے مطابق ثناءفیصل کے شوہر کا دعویٰ ہے کہ آئسکریم مبینہ طور پر زہریلی تھی۔ایس ایچ او حیدری مارکیٹ ذوالفقار کے مطابق عباسی شہید ہسپتال میں ثنا فیصل کا بیان لیا گیاتھا جس کے بعد واقعے کی ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی تھی۔مذکورہ لڑکے کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکا۔تاہم بعد ازاں ثنا فیصل کے کہنے پر ہی پولیس نے کیس کو داخل دفتر کردیا تھا۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مقدمہ درج کروانے کے باوجود پولیس کو اس کیس کی تحقیقات کیوں نہیں کرنے دی گئیں ؟کیا یہ بھی سستی شہرت حاصل کرنے یا ریٹنگ بڑھانے کا کوئی طریقہ تو نہیں تھا؟جس طرح کہ لیک ہونے والی ویڈیو یا خاتون کو تھپڑ مارنے کا معاملہ سامنے آیا تھا؟ثناءفیصل ٹی وی میزبان ہونے کے ساتھ پروڈیوسر اور مصنفہ بھی ہیں، انھوں نے کئی مختصر کہانیاں بھی لکھی ہیں۔
خفیہ کے پیچھے خفیہ ہاتھ کس کا ہے؟
طاہر نیاز پرویز کا تعلق اب تک نیوز سے ہے اور وہ اب تک نیوز کے پروگرام خفیہ میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں، اس ضمن میں باخبر ذرائع کا دعوی ہے کہ اس شعبے میں آنے سے قبل وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھے اور وہاں سے ناپسندیدہ معاملات کی وجہ سے ان کی نوکری ختم ہو گئی تھی جس کے بعد انہوں نے چند سال قبل ایکسپریس نیوز گروپ کا نیا آنے والا چینل ہیرو ٹی وی جوائن کیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہیں ہیرو ٹی وی بھی چھوڑنا پڑا، واقفانِ حال اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں فیکٹری مالکان کو ایک پروگرام شوٹ کرتے ہوئے کچھ وصول کرنے کی کوشش کی تھی تاہم ایکسپریس ٹی وی کے ایک رپورٹر تک جب یہ بات پہنچی تو مینجمنٹ نے ان سے سختی سے باز پرس کی۔بعد ازاں انہوں نے ایک اور ٹی وی چینل سما کے ایک پروگرام میں وہ ویڈیو چلوادی تھی، ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ جب زمان ٹاو¿ن کے علاقے میں کتے کاٹنے والا معاملہ سامنے آیا تو ایک بار پھرطاہر نیاز کا نام سامنے آیا۔ اس وقت ان کی ٹیم کا ایک رکن جس کی ہائی روف اس معاملے میں استعمال ہوئی تھی اب ان کی ٹیم سے منحرف ہو چکا ہے اور سنا یہ ہے کہ اب وہ ساری سچائی بتانے کو تیار ہے، زمان ٹاو¿ن کے معاملے کا ڈراپ سین یہ ہوا کہ طاہر نیاز کا اسسٹنٹ ہی اصل کہانی لیک کر بیٹھا اور اس نے بتادیا کہ کتے کہاں سے آئے تھے اور نشے کے عادی قصائی کون لایا تھا، اور ہائی روف وین کس کی استعمال ہوئی تھی،طاہر نیاز پرویز نے ساری کہانی لیک کرنے والے اپنے اسسٹنٹ کو کورنگی صنعتی ایریا تھانے میں ایک جھوٹے مقدمے میں فٹ کرادیا تھا کہ مجھے اس نے ٹی سی ایس سے نائن ایم ایم کی گولیاں بھیجی ہیں۔ طاہر نیاز کا گیسٹ ہاو¿س والا کارنامہ تو سب کے سامنے ہے ہی، موصوف نے جاگ ٹی وی میں بھی ایک پروگرام کے دوران کچھ ایسے ہی معاملات کیے تھے کہ انتظامیہ کو ان سے معذرت کرنی پڑ گئی تھی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں