کراچی میں پارکوں، سرکاری اراضی پر قبضہ کیس، سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا
شیئر کریں
کراچی میں پارکوں اور سرکاری اراضی پر قبضوں کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا۔منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور دیگر کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔جسٹس منیب اختر نے درخواستوں کی سماعت سے معذرت کر لی۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جسٹس منیب اختر ان درخواستوں کو کئی بار ہائی کورٹ میں سن چکے ہیں اس لیے انہوں نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی ہے ۔ نعمت اللہ خان کی درخواست پر سال 2013 میں سپریم کورٹ نے شہری حکومت اور کے ایم سی کو ہدایت کی تھی کہ تجاوزات میں ملوث افراد کو فوری طور پر نوٹس جاری کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری نے کہا تھا کہ قبضہ مافیا نے نہ سرکاری ا سکول چھوڑے ہیں اور نہ ہی عوامی پارک ،جو بھی جگہ ملی اس پر قبضہ جما لیا۔ سڑکیں تجاوزات کی وجہ سے اتنی سکڑ کر رہ گئی ہیں کہ ٹریفک کے انتظامات درہم برہم ہو گئے ۔ا نہوں نے کہا تھا کہ پبلک پارکس میں عوام کی تفریح کے لیے بنائے گئے ، ان میں تجاوزات اور کمرشل بنیادوں پر استعمال قانون کی نظر میں سنگین جرم ہے ۔گزشتہ سال 2018 میں ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ پاکستان کے جج جسٹس گلزار احمد نے کراچی ڈ ویلپمنٹ اتھارٹی اوردیگر حکام کو حکم دیا تھا کہ تجاوزات فوری ختم کرکے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ کریں جب کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کشمیر روڑ پر تمام تجاوزات کا خاتمہ کردیا گیا ۔گزشتہ سال سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں بڑے پیمانے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا، آپریشن کے دوران نہ صرف پارکوں کو اپنی اصلی حالت میں بحال کیا گیا بلکہ غیر قانون مکانوں کو بھی مسمار کیا گیا جبکہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف موجود غیر قانونی ہزاروں دُکانوں کو بھی مسمار کیا جا چکا ہے ۔