میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روس ،یوکرین تنازع ہے کیا ؟

روس ،یوکرین تنازع ہے کیا ؟

ویب ڈیسک
هفته, ۲۶ فروری ۲۰۲۲

شیئر کریں

روسی فوجوں کا یوکرائن میں داخل ہوناعالمی امور پر نظر رکھنے والوں کے لیے کافی حیران کُن ہے کیونکہ چند روز قبل تک روسی صدر سمیت دیگرعہدیداران کسی ممکنہ حملے سے انکاری تھے مگر اچانک کیا ہوا کہ عالمی برادری کو پُرامن رہنے کی کرائی یقین دہانیاں بالائے طاق رکھتے ہوئے چڑھائی کر دی ؟د راصل یہ تنازع دو ملکوں نہیں دو نظاموں کی بقا کی جنگ ہے سرمایہ دارانہ نظام کو اِس وقت مختلف نوعیت کے خطرات لاحق ہیں اِنھی خطرات سے بچانے کے لیے نیٹو کی صورت میں محافظ سرگرم ہیںیوکرائن میں یہی جنگ لڑی جارہی ہے اِس جنگ کو ٹالنا بہت آسان تھا اگر نیٹوکی طرف سے یوکرائن کو ممبر نہ بنانے کی یقین دہانی کرادی جاتی تو روس ہر گز سرحدوں کو پامال نہ کرتامگر نیٹوکو شایدیقین تھا کہ پولینڈ،لٹویااور ایسٹونیا کی طرح یوکرائن کے ممبر بننے پر بھی روس معترض نہیں ہوگاحالانکہ اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ ممالک کی یوکرائن جیسی جغرافیائی اہمیت نہیں اسی لیے اندازے غلط ثابت ہوئے اور روس وعدوں سے انحراف کرنے پر مجبورہواجس کے جواب میںسرمایہ دارانہ نظام کے بطور نگہبان امریکا اور مغربی ممالک پر مشتمل نیٹواتحاد نے قدرے سخت موقف اختیار کیا لیکن روس یوکرائن تنازع کے عالمی جنگ بننے کا قطعی کوئی امکان نہیں کیونکہ جب تک نیٹو ممالک کو خطرہ محسوس نہیں ہوتا وہ سرخ لیکر نہیں سمجھیں گے مزید یہ کہ عالمی جنگ تبھی ممکن ہے جب روسی اور امریکی فوجیں ٹکراجائیں روسی فوجوں کا سرحدیں پارکرنے کو دونظاموں کی بقا کی کشاکش کے تناظر میں دیکھیں توروس یوکرائن تنازع سمجھنا مشکل نہیں۔
یوکرائن کی روس کے ساتھ دوہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے یہی اُسے پریشانی ہے کہ ہمسایہ یوکرائن نیٹوکا ممبر بننے سے قبل ہی نیٹو سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے ہزاروں ٹن پر مشتمل امریکی ہتھیاروں کی تین کھیپ ملنے پرہی یوکرائنی صدر ولودومیرزیلینسکی پُراعتمادہوئے اور اب روسی حملے کے بعد عالمی طاقتوں پر تنہا چھوڑنے کا شکوہ کرتے ہیں لیکن ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کے لیے پُزعزم ہیں مگر یہ ملک روس جیسی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا روس سے آزادی کے وقت یوکر ائن ایٹمی طاقت تھانیٹو نے ہی ایٹمی ہتھیار ختم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اُسے یقین دہانی کرائی کہ ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی صورت میں نہ صرف ہر موقع پر ساتھ دیں گے بلکہ کسی طرف سے حملہ ہوا تو تمام نیٹو ممالک مل کر مقابلہ کریں گے کا لیکن اب کسی طرف سے کوئی وعدہ پورا نہیں ہورہا چند طیارے گرانے اور فوجی گرفتار کرنے کو مقابلہ نہیں کہہ سکتے ہر حوالے سے روس کو سبقت حاصل ہے یہ تنازع سفارتکاری سے حل کیا جا سکتا تھا مگر نیٹو کی وجہ سے یوکرائن نے ابتدا میں پس و پیش سے کام لیا جب معاملا بگڑاتوامن کا پرچم بلند کیامگر تب تک دیر ہوچکی تھی اسی لیے جب ماہرین حالیہ جھڑپوں کو نیٹو کی اشتعال انگیزی قرار دیتے ہیں تو اِس الزام کوجھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں مگر دو نظاموںکی آویزش کو انسان کشی تک لاناقابلِ مذمت ہے ۔
عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ نے روس سے فوجی کاروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے مگر صدرپوٹن اپنے اِرادوں پر قائم ہیں اور یوکرائن سے لاحق خطرات کو فوجی کاروائی کا جواز پیش کرتے ہیں نیز کسی طرف سے مداخلت ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہیں یوکرائن کو میدانِ جنگ بناتے ہوئے نیٹو نے کئی غلطیاں کیں ایک تو یہ کہ روس اور یوکرائن کا سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں دوم یہ کہ روس آج بھی دفاعی حوالے سے بڑی طاقت ہے افغانستان ،عراق ،شام یا لیبیا کی طرح اُسے اسلحہ کی کمی نہیں بلکہ بھاری بھرکم تربیت یافتہ ایک بڑی فوج ہے علاوہ ازیں چین جیسی دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی ہمنوا ہے جبکہ امریکا بڑی معاشی وفوجی طاقت ضرور لیکن ایک عشرے سے زوال پذیر ہے اسی لیے ماہرین روس اور نیٹو کے متوقع ٹکرائو کی پُرزور نفی کرتے ہیں یوکرائن کے ایسے علاقے جہاں روسی النسل اکثریت میں ہیں یہ علیحدگی کے خواہشمند اور روسی فوج کے حق میں ہیں لیکن نیٹو اندازہ نہ کرسکا جنگ میں براہ راست ملوث ہونے کی صورت میں سرمایہ دارانہ نظام کولاحق خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے جواِس نظام کو منہدم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میںنیٹو جیسا طاقتور فوجی اتحاد بکھر سکتا ہے کیونکہ نیٹو کی مداخلت کی صورت میں چین کاجنگ سے الگ رہنا ناممکن ہو جائے گاروس نے مشرقی یوکرائن کی دونستک اور لوہا نسک کو بطور آزاد علاقے اِس لیے تسلیم کیا ہے کہ یہ علاقے کئی برسوں سے روس نوازعلیحدگی پسندوںکے کنٹرول میں ہیں جو مزاحمت کی بجائے روسی فوج کا خیر مقدم کر رہے ہیں ۔
امریکاکو بخوبی معلوم ہے کہ اسلامی ممالک میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کوچیلنج کر سکیں جن ملکوں کی قیادت کے زہنوں میں ایسا خناس تھا وہ عبرتناک انجام سے دو چار ہو چکے ملا عمر،کرنل قذافی اور صدام حسین جیسے لوگ رزقِ خاک بننے کے بعدکسی مسلم حکمران میںخطرات مول لینے کی ہمت نہیں رہی طیب اردوان اور عمران خان باتیں تو خوب کرتے ہیںلیکن عملی طور پر غیر سنجیدہ ہیں اسی لیے اُن کے خیالات کو عالمی سطح پر اہمیت نہیں دی جاتی روس کے ہمسائے یوکرائن کو مرکز بنا کر سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف نظام کو تلپٹ کرنے کوکوشش کا بظاہر کوئی جواز نہیں کیونکہ روس خود سوشلزم چھوڑ چکا لیکن نیٹوکے خطرے کو بھانپتے ہوئے روس نے حفظِ ماتقدم کے طور پر قبل ازوقت کاروائی شروع کر دی جو بھی ہے ایک نظام کو بچانے کے لیے انسانی آبادی کو تلف کرناغلط ہے ۔
عالمی صورتحال اب مکمل طور پر بدل چکی ہے اسلامی ممالک کے خلاف کاروائیوں کے دوران اقوامِ متحدہ نے بھر پور ساتھ دیا کیونکہ امریکا نے سب طاقتوں کو باور کرادیا تھا کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے کسی مذہب یا نظام کے خلاف نہیں اگردہشت گردوں کے خلاف بروقت کاروائی نہ کی گئی تو دنیا کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے اسی لیے سلامتی کونسل کے مستقل ممبران نے ساتھ دیا مگر یوکرائن ایشومیں صورتحال مختلف ہے نہ صرف روس کو ویٹو کا حق حاصل ہے بلکہ چین جیسے بڑے اتحاد ی کی رفاقت بھی میسر ہے اسی لیے یو این او اُس کے خلاف قرارداد پاس کرنے یا کاروائی سے قاصر ہے جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس لاکھ اپیل کریں یا کسی فیصلہ کُن اقدام کا عندیہ دیں روس کو باز نہیں رکھا جا سکتا البتہ مغربی ممالک اور امریکہ کی معاشی پابندیاں اُس کی معیشت کو کسی حد تک نقصان پہنچا سکتی ہیں مگریورپ میں توانائی کا بحران بھی یقینی ہے نیٹو ممالک کی اشتعال انگیزی اور روسی جارحیت سے کسی نظام کا تحفظ تو نہیں ہو سکتا مگر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے دنیا میں بھوک و افلاس بڑھ جائے گی۔
امریکا نے جس اسلامی ملک پربھی چڑھائی کی فوجی و سویلین آبادی کو بے دریغ کارپٹڈ بمباری سے تباہ وبرباد کردیا مگر روس نے میزائل ڈیفنس سسٹم ،بحری وفضائی انفراسٹرکچر ،ائرپورٹس سمیت مخصوف اہداف کو نشانہ بنایاہے اِس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ روس کی کاروائی محتاط ہے اوروہ اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کم کر ناچاہتا اور یوکرائن کوغیر ملکی مداخلت سے پاک دیکھنا چاہتا ہے یوکرائن میں روس کی موجودہ جارحیت سے سرمایہ دارانہ نظام کو نقصان نہیں ہوسکتا اسی لیے روس کا کسی طرف سے عملی طور پر جواب کا امکان کم ہے لیکن روس ،یوکرائن تنازع سے عالمی منڈی میں خام تیل اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ سے غذائی اجناس میں کی قیمتوں میں ہوشرباگرانی آئے گی جن کے گہرے اثرات سے یورپ سمیت پوری دنیا شدید متاثر ہوگی مشرقِ وسطٰی اور شمالی افریقہ کے جودرجن بھر ممالک میں یوکرائین سے گندم درآمد کرتے ہیں میں آٹے کا بحران پیداہوگا یورپ کا ایک مخمصہ یہ ہے کہ اگر یوکرائن کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو دفاعی حوالے سے غیر محفوظ ہونے کے علاوہ گیس ،پیٹرول اور اشیائے ضروریہ کے حوالے سے بھی ہر وقت خطرات کی زدمیں رہیں گے اِس لیے سرمایہ دارانہ نظام کاتحفظ کرنے کی بجائے روس اور یوکرائن تنازع جتناجلد ختم کرایا جائے دنیا کے لیے بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں