میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسٹیٹ بینک، دفاتر منتقلی سے ملک دشمنوں کو فائدہ پہنچائے گا

اسٹیٹ بینک، دفاتر منتقلی سے ملک دشمنوں کو فائدہ پہنچائے گا

منتظم
منگل, ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ایچ اے نقوی
اسٹیٹ بینک کی جانب سے اپنے بعض دفاترجن میں کرنسی مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ،فارن ایکسچینج ڈیپارٹمنٹ،جنرل سروسز ڈیپارٹمنٹ اوراکاﺅنٹس ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان ڈیپارٹمنٹ کے عملے کوہدایت کی ہے کہ وہ لاہور منتقلی کے بارے میں انتظامیہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیں،اسٹیٹ بینک کے اس فیصلے نے ایک نیا اور سنگین مسئلہ کھڑا کردیا ہے،اور کراچی کی تا جر برادری کو ہلاکر رکھ دیا ہے ،اگرچہ اسٹیٹ کے ترجمان کاکہناہے کہ یہ کوئی بڑا اورسنگین فیصلہ نہیں ہے بلکہ بینک کے بعض دفاتر لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے یہ فیصلہ خالص انتظامی بنیادوں پر کیا گیاہے لیکن اسٹیٹ بینک کے ترجمان کی اس وضاحت کے برعکس کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں نے اسٹیٹ بینک کے اس فیصلے کو انتظامی کے بجائے سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت اور مخالفت کرتے ہوئے متنبہ کیاہے کہ اس فیصلے کوتبدیل کیاجائے اور سندھ اور خاص طورپر کراچی کے عوام اور تاجر برادری کو ایک نئے مسئلے مین گھسیٹنے اور ان کی مشکلات میں اضافہ کرنے سے گریز کیاجائے۔سندھ کی تاجر برادری نے اسٹیٹ بینک کے ارباب اختیار اور خاص طورپر وفاقی حکومت کو متنبہ کیاہے کہ اس فیصلے کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جو نہ صرف وفاق بلکہ بحیثیت مجموعی پورے ملک کی یکجہتی اوراتحاد کیلیے انتہائی نقصاندہ اور ضرر رساں ثابت ہوسکتے ہیں۔
سندھ کے صنعتوںسے متعلق وزیر منظور وسان نے اس فیصلے کو سندھ کے عوام اور تاجروں وصنعتکاروں کے مفاد کے منافی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ یہ فیصلہ سندھ کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہے انھوں نے واضح الفاظ میں کہاہے کہ سندھ کی حکومت اس فیصلے کے حق میں نہیں ہے۔انھوں نے وفاقی حکومت کو متنبہ کیاہے کہ سندھ کے صنعت کار اور تاجر پہلے ہی گوناگوں مسائل کا شکار ہیں اور سندھ کی حکومت اس فیصلے کے خلاف صنعتکاروں کے ساتھ ہے اور کسی کو سندھ کے صنعتکاروں اورتاجر برادری سے ناانصافی کرنے اورانھیں مشکلات کاشکار کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی۔
سینیٹ کی مالیاتی امور سے متعلق قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اسٹیٹ بینک کے 5 اہم دفاتر کراچی سے لاہور منتقل کرنے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے انتظامی کے بجائے سیاسی فیصلہ قرار دیاہے۔انھوں نے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت تمام اہم دفاتر لاہور متنقل کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے،انھوں نے کہا گزشتہ 70 سال سے اسٹیٹ بینک کے تمام شعبے کراچی میں احسن طریقے سے کام کررہے ہیں اور آج تک ملک کے کسی بھی علاقے کے تاجروں صنعتکاروں اور بینکاروں کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی شکایت پیدانہیں ہوئی اور انھیں کسی دشواری کاسامنا بھی نہیں کرنا پڑا ہے،آخر مسلم لیگ ن کو اپنے دور حکومت میں ان سے کیاشکایت پیداہوگئی،انھوں نے کہا کہ اس فیصلے پر عمل سے اسٹیٹ بینک کی کارکردگی متاثر ہوگی اس کے عملے کومشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی طرح اس اہم ادارے اور بحیثیت پورے ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
ایوان صنعت وتجارت کراچی کے صدر نے اس فیصلے پر گہری تشویش کااظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر زور دیاہے کہ وہ کراچی کی تاجر وصنعت کار برادری کے ساتھ اس سنگین ناانصافی کو روکے انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی عدم توجہی کے سبب تاجر وصنعت کار برادری پہلے ہی گوناگوں مسائل اور مشکلات کاشکارہے ان کی پریشانیوں اورمشکلات میںمزید اضافہ کرنے سے گریز کیاجائے انھوںنے کہاہے کہ اس فیصلے پر عمل سندھ کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور یہ سندھ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کے مترادف تصور کیاجائے گا۔ ایوان صنعت وتجارت کراچی کے صدر نے وفاقی حکومت سے سوال کیاہے کہ اس وقت جبکہ تمام اہم بینکوں،مالیاتی اداروں ،ملٹی نیشنل کمپنیوںاور ایل ایس ایم کے صدر دفاترکے علاوہ ملک کی دو اہم بندرگاہیں کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کراچی میں ہیں ایسی صورت نے وفاقی حکومت نے اسٹیٹ بینک کے 5 انتہائی اہم دفاتر کو لاہور منتقل کرنے کیلیے کیسے سوچ لیا۔
ایک ایسے وقت جب ملک مختلف سنگین مسائل سے دوچار ہے اور خود وزیراعظم اور وفاقی حکومت کو سنگین الزامات اور دھرنوں اور احتجاجات کا سامنا ہے اسٹیٹ بینک کی جانب اس طرح کے سنگین فیصلے کا سبب سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ لاہور کی جانب سے کبھی بھی اس طرح کاکوئی مطالبہ بھی سامنے نہیں آیا اور ملک کے کسی بھی صوبے اور علاقے کے صنعتکارروں اور تاجروں نے اسٹیٹ بینک کے کسی بھی شعبے کی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھایاہے ،اور اسٹیٹ بینک کاموجودہ نظام1948 سے احسن طورپر کام کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ملک کادارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیاگیاتو بھی اسٹیٹ بینک کے نظام کو نہیں چھیڑا گیا اور اسٹیٹ بینک کاہیڈکوارٹر بدستور کراچی ہی میں موجود رہا۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت کے پالیسی سازوں کو بھی کراچی کی صنعتی اور کاروباری اہمیت کااندازہ تھا اور اس کی وجہ سے اسٹیٹ کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں برقرار رکھنے کی افادیت ان کے علم میں تھی۔وہ جانتے تھے کہ کراچی ملک کاواحد کاسموپولیٹن شہر اور پورے ملک کاتجارتی مرکز ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کا کم وبیش 70 فیصد حصہ ادا کرتاہے اس اعتبار سے کراچی اسٹیٹ بینک کاقدرتی صلاحیتوں کاحامل ہیڈ کوارٹر ہے۔ موجودہ صورت حال میں اسٹیٹ بینک کے دفاتر کی لاہور منتقلی سے بجاطورپرکراچی اورسندھ کے عوام میں احساس محرومی میں اضافہ ہوگا اور اس فیصلے کا سبب خواہ کچھ بھی ہو کراچی اور سندھ کے عوام میں یہ تاثر ضرور پیداہوگا کہ ان کو ان کے حقوق سے محروم کیاجارہاہے ، اور اس سے سب سے زیادہ فائدہ وہ ملک دشمن قوتیں اٹھانے کی کوشش کریں گی جو اس ملک کو دولخت بلکہ کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوششوں میں عرصہ دراز سے لگی ہوئی ہیں،اور جس کاایک مظاہرہ 22 اگست کو سامنے آچکاہے ،اور یہ بھی ظاہرہوچکاہے کہ ان قوتوں نے نہ صرف یہ کہ ابھی تک شکست تسلیم نہیں کی ہے بلکہ اپنی قوت مجتمع کرکے بھرپور وار کرنے کی تیاریاں کررہی ہے۔اس طرح یہ واضح ہے کہ اسٹیٹ بینک کے دفاتر لاہور منتقل کرنے کے فیصلے سے ملک دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گی اور ملک کومتحداور منظم رکھنے والی قوتوں کو زبردست دھچکہ لگے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں