شام کا محاذپھر گرم‘حُمص میں شامی انٹیلی جنس سربراہ ہلاک، امریکی جنرل کاخفیہ دورہ،الباب ترکی کے ہاتھوں فتح
شیئر کریں
ملٹری انٹیلی جنس سربراہ اور بشارالاسد کے قریبی ساتھی حسن دعبول سمیت 41افراد نشانہ بنے، پانچ سرفروشوں نے حملہ کیا،تحریرالشام
ترک فوج نے الباب کو داعش سے خالی کرالیا، امریکا کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ کا شمالی شام کا خفیہ دورہ، کرد باغی لیڈروں سے ملاقاتیں
ابومحمد
شام میں انسانی حقوق کے نگراں گروپ نے بتایا ہے کہ شام کے مغربی شہرحمص شہر میں سکیورٹی اداروں کے صدر دفاتر پر دو خودکش حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 42 ہو گئی ہے۔ ہلاک شدگان میں حمص میں شامی فوجی انٹیلی جنس کی شاخ کا سربراہ اور بشارالاسد کا قریبی ساتھی جنرل حسن دعبول بھی شامل ہے۔ پہلی کارروائی میں شامی حکومت کے زیر کنٹرول تیسرے شہر ح±مص میں ریاستی سکیورٹی کے صدر دفتر اور دوسری میں فوجی انٹیلی جنس کے صدر دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ روز ترک افواج نے آپریشن فرات ڈھال میں الباب کو داعش سے خالی کراکر اس پر فتح پالیا ہے تاہم ترک تجزیہ کاروں کو اس کامیابی پر عالمی میڈیا کی بے رخی کا شکوہ ہے جس نے داعش پر ترک فوج کی فتح کو بالکل اہمیت نہیں دی۔
ادھر امریکا کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ نے شام کے شمالی علاقے کا خفیہ دورہ کیا ہے اور کرد باغی لیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان باغی لیڈروں کا تعلق شام میں سرگرم باغی گروپ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز سے ہے۔
رپورٹس کے مطابق ح±مص شہر میں ان دنوں شامی حکومت اور بشار نواز مسلح عناصر کی جانب سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ سکیورٹی اداروں کے مراکز پر ہونے والے ان حملوں کو روکا جا سکے۔دوسری جانب شامی اپوزیشن گروپوں نے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب حمص کے نواح میں بشار حکومت کے زیر کنٹرول گاو¿ں جبورین کے علاقوں پر راکٹ گرینیڈز داغے۔ ادھر شامی لڑاکا طیاروں نے گزشتہ رات حمص کے شمالی نواح میں غرناطہ گاو¿ں کے کئی علاقوں پر بم باری کی۔
قبل ازیں حمص میں سکیورٹی اڈوں پر مسلح حملہ آوروں اور خودکش بمباروں کے حملے میں کم از کم 32 افراد ہلاک ہو گئے ۔جہادی تنظیم تحریر الشام نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔مزاحمت کاروں نے ایک امن معاہدے کے تحت دسمبر 2015 میں حمص کو خالی کر دیا تھا جس کے بعد سے یہ شہر حکومت کے کنٹرول میں ہے۔شام میں جاری جنگ کی مانیٹرنگ کرنے والی تنظیم سیریئن آبرزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے شہر میں ملٹری سکیورٹی کے صدر دفتر اور ریاستی سکیورٹی کے ایک دفتر کو نشانہ بنایا۔یہ حملے غوثہ اور مہتھا کے علاقوں میں کیے گئے ہیں جہاں عموماً سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات ہوتے ہیں۔ریاستی ٹی وی کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کے قریبی ساتھی مانے جانے والے آرمی انٹیلیجنس کے صوبائی چیف جنرل حسن دابل بھی ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔تحریر الشام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ان کے پانچ سرفروش شامل تھے۔
تحریر الشام اس وقت وجود میں آئی تھی جب جبہة الفتح الشام نے (جسے النصرا فرنٹ بھی کہا جاتا ہے) گذشتہ جولائی میں القاعدہ سے باضابطہ تعلقات ختم کر دیے تھے اور شام میں چار دیگر چھوٹی تنظیموں سے اتحاد کر لیا تھا۔
اسی ماہ تنظیم نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں طاقتور اسلام پسند باغی گروہ احرار الشام کے سابق سربراہ ہاشم الشیخ اب ان کی قیادت کریں گے۔
ادھر ایک روز قبل بھی شام میں مزاحمت کاروں کے زیرِ قبضہ قصبے الباب میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں کم از کم 41 افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس دھماکے کی وجہ سے مزاحمت کاروں کی ایک سکیورٹی پوسٹ تباہ ہو گئی۔
یہ گاو¿ں شمال مغربی قصبے الباب سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور جہاں سے ترک حمایت یافتہ مزاحمت کاروں نے جمعرات کو دولتِ اسلامیہ کو پیچھے دکھیلا تھاشامی حزب اختلاف کی خبر ایجنسی کا کہنا تھا شہری یہاں الباب واپسی کی اجازت طلب کرنے کے لیے کھڑے تھے کہ دھماکہ ہو گیا۔
یہ قصبہ 2012 میں شامی مزاحمت کاروں کے کنٹرول میں آیا جس کے بعد 2014 کے اوائل میں یہ داعش کے قبضے میں چلا گیا تھا اور یہ کئی غیر ملکی جہادیوں اور ان کے خاندانوں کا گڑھ بن گیاتھا۔بعد ازاں گزشتہ روز ترک افواج نے آپریشن فرات ڈھال میں الباب کو داعش سے خالی کراکر اس پر فتح پالیا ہے ۔ترک میڈیا کے مطابق شمالی شام کو دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کے زیر مقصد 24اگست کو ترکی کی قیادت میں شروع ہونے والے فرات ڈھال آپریشن کے دائرہ کار میں الباب پر مکمل طور پر کنٹرول قائم کر لیا گیا ہے تاہم ترک تجزیہ کاروں کو اس کامیابی پر عالمی میڈیا کی بے رخی کا شکوہ ہے جس نے داعش پر ترک فوج کی فتح کو بالکل اہمیت نہیں دی۔ترک حکام کے مطابق دہشت گرد تنظیم کے قبضے میں ہونے والے ایک شہر کو نجات دلائے جانے کو اہمیت نہ دینے والے بی بی سی نے الباب کے نواحی علاقے س±سیان گاو¿ں کی خبر کو نمایاں بنانے کو ترجیح دی ہے۔ترک تجزیہ کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک دور میں دہشت گرد تنظیم داعش کو ترکی سے جوڑنے کے لیے جھوٹے الزامات عائد کرنے کی دوڑ میں شامل ہونے والے عالمی ذرائع ابلاغ کے نامور ادارے اب ترک مسلح افواج کی الباب کو داعش سے پاک کرنے اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نظر انداز کرنے میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے تازہ صورتحال کو محض ایک سطر ی خبر کے ساتھ ہی رائے عامہ تک پہنچانے پر اکتفا کیا ہے۔
امریکی سی این این چینل نے بھی بی بی سی کی طرح سسیان گاوں میں حملے کی خبر کو وسیع جگہ دی ہے۔اسی طرح امریکی نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن ٹائمز نے بھی بڑے دھیمے لہجے میں الباب کی خبر کو شائع کیا ہے۔واضح رہے کہ ترک مسلح افواج کی زیر حمایت آزاد شامی فوج نے شام کے شمال میں واقع قصبے الباب کے مرکز کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔آزاد شامی فوج نے الباب کے مرکز کو مکمل طور پر داعش کے قبضے سے واگزار کروانے کے بعد داعش کی طرف سے علاقے میں بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کی کاروائیاں شروع کر دی ہیں۔آزاد شامی فوج کے کمانڈر احمد ال شہابی نے کہا ہے کہ الباب کنٹرول میں آ گیا ہے اور بارودی سرنگوں کی موجودگی کی وجہ سے ہم محتاط طریقے سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے کے لیے الباب کا محاصرہ کرتے ہوئے محتاط طریقے سے دہشت گردوںکو پسپا کیا گیا۔
ادھر امریکا کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ نے شام کے شمالی علاقے کا خفیہ دورہ کیا ہے اور کرد باغی لیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان باغی لیڈروں کا تعلق شام میں سرگرم باغی گروپ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز سے ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا کی سنٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے انتہائی خفیہ انداز میں شمالی شام کا ایک اور دورہ کیا ہے۔ جمعہ 24فروری کو جنرل ووٹل نے شمالی شام کے کرد علاقے میں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کے مرکزی نمائندوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس دورے کی تصدیق سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے کر دی ہے۔
شمالی شام کے اِس باغی گروپ کے ترجمان طلال سیلو نے بتایا کہ امریکی جنرل کے ساتھ شام کی مجموعی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے ایس ڈی ایف کی عسکری کارروائیوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سیلو نے بتایا کہ امریکی جنرل نے مستقبل میں بھاری ہتھیار فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ جنرل ووٹل ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے اعلیٰ فوجی افسر ہیں جنہوں نے شمالی شام کا دورہ کرتے ہوئے مقامی باغی رہنماو¿ں سے ملاقات کر کے تبادلہ خیال کیا ہے۔طلال سیلو نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی جنرل نے وعدہ کیا ہے کہ حلب کے ایک شہر مَنبِج کو ترک فوجی حملے سے بچایا جائے گا۔ امریکی فوج کے ہیڈکوارٹرز پینٹاگون نے جنرل ووٹل کے دورے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
جنرل ووٹل گزشتہ برس مئی میں بھی شمالی شام کا ایک دورہ کر چکے ہیں۔سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ یہ تنظیم 2015 میں قائم کی گئی تھی۔