غزہ کی آبادی موت وزیست کی کشمکش میں
شیئر کریں
غزہ بدستور محاصرے میں ہے اور اسرائیل نے اپنی سرحد پر پانی، بجلی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی روک دی ہے۔ طبی خیراتی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں زخمیوں کی ’اگلے چند گھنٹوں‘ میں ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ سے زائد افراد کے بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے۔ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن نے فلسطین کی صورتِ حال پر اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ غزہ میں خوراک کی کمی سنگین انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے، ہزاروں زخمی غزہ کے اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ غزہ میں پانی اور اسپتالوں میں ضروری طبی آلات نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ فوری جنگ بندی کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرے۔پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ذمے داری ہے کہ وہ ان متاثرہ خاندانوں کی حفاظت یقینی بنائے۔
غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے تقریبا 20 ٹرک اور امدادی کارکنوں کی بڑی تعداد رفح سرحدی کراسنگ کے مصری حصے میں انتظار کر رہی ہے، اس امید میں کہ غزہ میں رسد کی فراہمی کے لیے اسے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ ابھی تک اس کے دوبارہ کھولے جانے کی کوئی خبر نہیں ہے۔غزہ کی طرف جانے والی واحد سڑک بمباری سے تباہ شدہ اور خطرناک ہ چکی ہے۔مصر ی مزدور رفح کراسنگ کی مرمت کی کوشش کر رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر آج 20 امدادی گاڑیاں غزہ پہنچ سکتی ہیں۔اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ صرف خوراک، پانی اور دواؤں کو راستے دینے پر رضامند ہوگا۔ غزہ میں بنیادی ضروریات کے لیے پانی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے کیونکہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے غزہ کی پٹی کا ’مکمل محاصرہ‘ کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لزارانی نے بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ ایک کھائی کے دہانے پر ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس غزہ میں متوقع امداد کی فراہمی سے قبل مصر کے رفح کراسنگ پر پہنچ گئے ہیں۔انتونیو گوتریس نے مصر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے ’پانی، ایندھن، ادویات اور خوراک سے بھرے بہت سے ٹرک‘ دیکھے ہیں۔ یہ ٹرک ’لائف لائن‘ اور ’غزہ میں بہت سے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کا فرق‘ ثابت ہوں گے مشرق قریب میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے کمشنر جنرل نے کہا کہ دنیا اب اپنی انسانیت کھو رہی ہے۔انھوں نے متنبہ کیا کہ پورے خطے میں تشدد پھیل سکتا ہے۔لزارینی نے غزہ کے اندر شہریوں کے لیے سنگین صورتحال کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے علاقے میں انسانی امداد کی راہداریوں کا ایک بار پھر مطالبہ کیا۔فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے سے تعلق رکھنے والی جولیٹ توما کہتی ہیں کہ غزہ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ’جہنم‘ بن چکا ہے۔ انھوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ شہریوں کو فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’وقت ختم ہو رہا ہے۔ تقریبا دو ہفتے ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دو ہفتوں سے یو این آر ڈبلیو اے غزہ میں کسی بھی قسم کی رسد لانے میں ناکام رہا ہے۔توما نے مزید کہا کہ ’وقت گزر رہا ہے‘ اور وہ نہیں جانتیں کہ رفح سرحدی گزرگاہ کب کھلے گی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیسے یقینی بنایا جائے گا کہ امداد حماس کے ہاتھوں میں نہ جائے تو انھوں نے کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے پاس سخت جانچ پڑتال اور نگرانی کا نظام موجود ہے کیونکہ تنظیم کے 13 ہزار عملے نے صرف ان لوگوں کو امداد فراہم کی ہے جنھیں اس کی ضرورت ہے اس وقت غزہ کے ہسپتالوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ایندھن کی اشد ضرورت ہے اور واٹر فلٹر سسٹم کی بھی لیکن یہ دونوں اس معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے قاہرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ داخلے کے لیے فراہم کی جانے والی رسد سے انسانی درد اور مصائب میں کمی آئے گی۔مصری فوڈ بینک کے چیف ایگزیکٹیو محسن سرحان نے کہا ہے کہ اگر رفح کراسنگ پر شدید بمباری جاری رہی تو امداد کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’جو چیز ہمیں اندر جانے سے روک رہی ہے وہ اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کے پورے حصے پرشدید ترین بمباری ہے ہم 8 دن سے سرحد پر موجود ہیں اور ہر منٹ بم گر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک بنجر زمین پر بھی بمباری کر رہے تھے جہاں نہ تو جانور ہیں اور نہ ہی انسان۔انھوں نے کہا کہ ’ہم اندر جانے کے لیے تیار ہیں لیکن مصری حکام ہمیں اس وقت تک اندر جانے کی اجازت نہیں دیں گے، جب تک کہ وہ اس بات کی ضمانت نہ دے سکیں کہ ہم فوراً ہی مارے نہیں جائیں گے۔
چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل چار کی روشنی میں غزہ کے محصورین کی حیثیت Protected persons کی سی ہے۔ جنیوا کنونشن کے مطابق جو لوگ کسی جنگ، قبضے یا تنازعے کے دوران خود کو کسی ایسی قوت کے رحم و کرم پر پائیں، جس کے وہ شہری نہ ہوں تو انہیں Protected persons کہا جائے گا۔جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 میں کسی بھی آبادی کو ’اجتماعی سزا‘ اور اس سے ملتے جلتے خوف زدہ کر دینے والے اقدامات کی اجازت نہیں ہے۔ جب کہ اسرائیل اس وقت غزہ میں ’اجتماعی سزا‘ کے فارمولے کے تحت شہریوں پر گولہ باری اور فضائی حملے کر رہا ہے۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 20 کے مطابق Protected persons کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی ممانعت ہے اور یہی اصول 1874 میں برسلز کانفرنس میں بھی وضع کیا جا چکا ہے۔جنیوا کنونشن کے آرٹیکل دو کے مطابق بھی انتقامی کارروائیوں کی اجازت نہیں۔کسی بھی عام شہری کو کسی بھی دوسرے آدمی کے کسی فعل پر سزا نہیں دی جا سکتی اور اگر دی جائے گی تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ جنیوا کنونشن نے اسے ’جنگی جرم‘ قرار دے رکھا ہے۔جنیوا کنونشن سے پہلے ایسے اقدامات کی کوئی ممانعت نہ تھی۔برطانیہ نے جنوبی افریقہ کے خلاف جنگ میں اور جرمنی نے جنگ عظیم اول میں اس طرح کے غیر انسانی حملوں کی یہی توجیح پیش کی تھی کہ قانون انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے۔چنانچہ اسی قتل و غارت کو دیکھتے ہوئے جنیوا کنونشن میں آئندہ کے لیے اس کی ممانعت کر دی گئی۔اسرائیل غزہ میں تاریخ کے پہیے کو ایک بار پھر الٹا چلا رہا ہے اور بنی نوع انسان کے شعور اجتماعی کی اس توہین میں جمہوریت اور حقوق انسانی کی علمبردار عالمی قوتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول کے آرٹیکل 17 کے مطابق مقامی آبادی کے لیے لازم ہو گا کہ وہ زخمیوں کی دیکھ بھال کرے اور ان کے خلاف اس وجہ سے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔اسرائیل نے غزہ میں ہسپتالوں پر بھی حملے کیے ہیں اور وہ مریضوں سمیت ملبہ بن گئے ہیں جب کہ سول آبادی کے تحفظ سے متعلقہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 16 کے مطابق زخمی اور بیمار خصوصی عزت کے مستحق ہیں۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار ہسپتالوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اسرائیل اس کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔سوال ہے کہ ایسی صورت حال میں بین الاقوامی قانون کیا رہنمائی کرتا ہے؟جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول ون کے آرٹیکل 52 کی ذیلی دفعہ3میں اس کا جواب موجود ہے۔لکھا ہے کہ: اس شک کی صورت میں کہ آیا کوئی جگہ جو بالعموم سویلین مقاصد کے لیے وقف ہو، کسی فوجی کارروائی میں موثر معاونت کے لیے استعمال ہو رہی ہے یا نہیں تو یہ تصور کیا جائے گا کہ و ہ اس طرح استعمال نہیں ہو رہی۔سینٹ پیٹرز برگ ڈیکلئریشن 1868 کے مطابق واحد قانونی ٹارگٹ دشمن کی ملٹری فورس کو کمزور کرنا ہے۔ سویلین پر حملہ جائز نہیں ہو گا۔یہی بات جنیوا کنونشن ایڈیشنل پروٹوکول ون کے آرٹیکل 52 کی ذیلی دفعہ دو میں بھی کہی گئی ہے۔حقوق انسانی کے عالمی اعلامیے (یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس) کے آرٹیکل 3 کے مطابق ہر کسی کو زندگی، آزادی اور جان کی سلامتی کا حق حاصل ہے۔ یہی بات یورپی کنونشن کے آرٹیکل 2میں بھی موجود ہے۔یہ حق ظاہر ہے غزہ کے ان مقتول بچوں کو بھی حاصل تھا جن کے منہ سے ماں کے دودھ کی خوشبو بھی ابھی جدا نہیں ہوئی تھی۔اسی طرح ہیگ رُولز آف ایئر وارفیئر کے آرٹیکل 22 کے مطابق شہری آبادی کو خوف زدہ کرنے یا نجی املاک کو تباہ کرنے کے لیے جن کی نوعیت عسکری نہ ہو بمباری کرنا ممنوع ہے۔ہیگ کنونشن IV کے آرٹیکل 25 کے مطابق کسی بھی ذریعے سے قصبوں، دیہاتوں اور رہائشی مقامات پر حملہ یا بمباری منع ہے۔ہیگ II (29 جولائی 1899) کے آرٹیکل 25 کے مطابق بھی قصبوں، دیہاتوں، رہائشی مقامات پر حملہ یا بمباری منع ہے۔لیگ آف نیشنز نے 30 ستمبر 1938 کو ایک متفقہ قرارداد میں قرار دیا تھا کہ شہری آبادی پر حملہ غیر قانونی ہے۔کسٹمری انٹر نیشنل لا سب سے طاقتور اصولوں کا مجموعہ ہے اور چاہے کوئی ملک ان کی توثیق کرے یا نہ کرے، ان کی پابندی سب پر لازم ہے۔ کسٹمری انٹر نیشنل لا کے چند اصول ایسے ہیں جو ہر وقت ہر تنازعے میں خود بخود لاگو سمجھے جاتے ہیں۔ان کے مطابق حملوں کا نشانہ صرف عسکری ٹارگٹ ہو سکتا ہے، شہری آبادی پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق رکھنا لازمی ہے، شہریوں کی املاک تباہ نہیں کی جا سکتیں، بلا امتیاز حملے نہیں کیے جا سکتے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حقوق انسانی اور جمہوری اصولوں کی نام نہاد علمبردار عالمی قوتوں کو کیا ان قوانین کا علم نہیں یا انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسرائیل کس سفاکانہ اور بہیمانہ طریقے سے فلسطینی بچوں بوڑھوں اور خواتین کو تہہ تیغ کر رہاہے۔کیا موجودہ موجودہ صورت حال میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل کا رفع کی سرحد پر پہنچ جانا ہی کافی ہے،کیا ان پر یہ فرض عاید نہیں ہوتا کہ وہ عالمی امن فوج کے دستے اسرائیل بھیجیں تاکہ وہ اسرائیل کے بربر فوجیوں کو فلسطینیوں کے قتل عام سے روک سکیں اور خطے میں امن بحال کرکے فلسطینی عوام کواپنی سرزمین پر جینے کا حق دے سکیں؟