میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گاجر چھڑی کی پالیسی‘ ڈکٹیشن نہیں چلے گی‘ پاکستان کا امریکا کو پیغام

گاجر چھڑی کی پالیسی‘ ڈکٹیشن نہیں چلے گی‘ پاکستان کا امریکا کو پیغام

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکی وزیر خارجہ کی اسلام آباد آمد کے موقع پر سفیر کے ہم رتبہ افسر نے استقبال کیا
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ریکس ٹیلرسن کو بے وقوف کہہ چکے ہیں‘ امریکی وزیر خارجہ کی تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں
اسلام آباد (تجزیہ: ظفر محمود شیخ) امریکا کی تاریخ کے ایک نہایت کمزور اور غیر یقینی وزیر خارجہ پاکستان سمیت خطہ کے دورہ پر ہیں جن کا نہ صرف اپنا ہوم ورک مکمل ہے، بلکہ یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ آیا اپنے وطن واپسی کے بعد وہ اپنے منصب پر قائم بھی رہتے ہیں یا نہیں، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات اتنے خراب ہیں کہ وہ اعلانیہ انہیں بیوقوف کہہ چکے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ جہاز سے واپس اترتے ہی وہ وہائٹ ہائوس جاتے ہیں یا دوبارہ کسی بڑی کاروباری کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔ امریکا اس بات میں بھی مکمل طورپر ناکام ہوگیا ہے کہ بھارت کا خوف دلاکر پاکستان کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے، اب امریکی وزیر خارجہ ایکس ٹیلرسن سعودی عرب اور قطر سے ہوتے ہوئے افغانستان پہنچے اور امریکی ایئربیس بگرام میں ڈھائی گھنٹے گزارنے کے بعد پاکستان آئے ہیں۔ شاید تاریخ میں پہلی بار امریکی وزیر خارجہ کو کولڈ شولڈر استقبال ہوا کہ چیف آف پروٹوکول تک ان کے استقبال کو نہ گئے، صرف امریکا ڈیکس کے سربراہ جو ایک سفیر کے مرتبہ کے برابر افسر ہیں ان کے استقبال کو پہنچے، اس طرح وزیراعظم ہائوس میں صرف ایک مقام پر وفود کی ملاقاتیں ہوئیں جن میں وزیراعظم ان کی ٹیم اور عسکری قیادت موجود تھی، اس طرح امریکیوں کو ٹھوس انداز میں پیغام دیا گیا ہے کہ حضور والا اب ہمیں آپ کی اتنی ضرورت نہیں جتنی آپ کو ہماری ضرورت ہے، اب گاجر اور چھڑی کی پالیسی نہیں اور نہ ہی ڈکٹیشن کا طریقہ کار چلے گا۔ وزیراعظم کے ساتھ دائیں جانب جنرل باجوہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کھڑے ہوکر واضح پیغام دے رہے تھے کہ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت اس معاملہ میں ایک ہے، لہذا الگ الگ ملاقاتوں کی ضرورت نہیں ہے، عملاً پاکستان نے امریکا کو اس کا چہرہ اور اوقات یاد دلادی ہے اور انہیں کہا ہے کہ اب آپ کی ایک فون کال پر لیٹ جانے اور دوسری فون کال پر پالیسی تبدیل کرنے کا دور نہیں، اب جو بھی کام ہوگا، ملک کے وسیع تر مفاد میں ہوگا۔ ڈومور کی بات مجھے کیوں نکالا کی طرح عالمی سطح پر بھی بدنام ہوچکی ہے اور پاکستان نے امریکیوں کو باور کرادیا ہے کہ اگر افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہے تو سب سے پہلے افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دراندازی اور دہشت گردی بند ہونی چاہئے، وہاں ٹی ٹی پی‘ جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں نیز علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کو روکنا ہوگا ،کم از کم الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے لوگوں کو سنائے بغیر امریکا کو شٹ اپ کال دی ہے اور اسے بتادیا ہے کہ افغانستان کے ٹریپ سے وہ پاکستان کے بغیر نہیں نکل سکتے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی اس صورتحال سے کیا سبق لے کر جاتے ہیں۔ ڈرون حملوں سے پاکستان کا نہ پہلے کچھ بگڑا تھا ناں اب بگڑے گا، مشترکہ آپریشن کو پاک فوج پہلے ہی امریکا کی خام خیالی قرار دے چکی ہے، مگر ایک غیر مستحکم نوکری کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار اور نہایت کچی اور غیر حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی لے کر آنے والے چند دنوں کے مہمان امریکی وزیر خارجہ سے کیا اچھی توقع کی جاسکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں