اپنے اکائونٹس چلانے سے قاصر… نیب کو مطلوب وزیر خزانہ ملک کے اکائونٹس چلارہا ہے
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق احتساب عدالت نے شریف خاندان کوسمن جاری کر دیا ہے اورنامزد ملزم نوازشریف اور ان کے بچوں کو 26 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس میں پیشی کے معاملہ پر احتساب عدالت کا شریف خاندان کو پیشی کا یہ آخری سمن جاری کیاگیاہے۔ نواز شریف ،حسن،حسین اور مریم نواز کی پیشی کا سمن لندن بھیج دیا گیا ہے۔ نیب نے حکم کی تعمیل کے لیے سمن وزارت خارجہ کو ارسال کر دیا۔ نیب نے پاکستانی ہائی کمیشن لندن کو سمن کی تعمیل کرانے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔ نامزد ملزم نواز شریف اور ان کے بچوں کو 26 ستمبر کو پیشی کا حکم دیدیا گیا ہے۔ جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سمن ان کے گھر پر آویزاں کرنے کے ساتھ احتساب عدالت میں عدم پیشی پر ان کی جائیداد اور بینک اکائونٹ منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں، اس حکم کے تحت اب وزیر خزانہ اپنے بینک اکائونٹ سے کوئی رقم نہیں نکال سکتے اور کسی کو چیک جاری کرنے کے بھی مجاذ نہیں ہے۔
وزیر خزانہ کے وارنٹ جاری ہونے اور اثاثے منجمد کئے جانے کے بعد اصولی طورپر ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے اور نیب عدالتوں میں پیش ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے بعد دوبارہ اپنے منصب پر واپس آتے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی لغت میں غالباً اصول اور اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے اس لیے ہما رے وزیر خزانہ بھی جو نیب قانون کے تحت خود اپنا بینک اکائونٹ چلانے کے اہل نہیں ہیں پورے ملک کااکائونٹ دھڑلے سے چلارہے ہیں اور اس ملک کو قرض کی دلدل میں دھکیلتے چلے جارہے ہیںایسا شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہو کہ کسی وفاقی وزیر کے وارنٹ جاری ہوگئے ہوں، گھر پر چھاپے پڑ رہے ہوں اور اثاثے ضبط کرنے کا حکم دے دیا گیا ہو مگر وہ اپنے منصب پر جما رہے۔ اور منصب بھی کیسا، وزیر خزانہ کا۔ گزشتہ بدھ کو اثاثہ جات ریفرنس کیس میں احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے اور نیب کی ٹیم نے گرفتاری کے احکامات اور سمن کی تعمیل اسحاق ڈار کے گھر جاکر ان کے ملازمین سے کروائی کیونکہ اسحاق ڈار تو کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن میں ہیں اور ان کا کہناہے کہ کلثوم نواز کی صحت یابی تک واپس نہیں آؤں گا۔اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم کو جلد از جلد شفاکاملہ عطا کرے تاکہ لندن میں موجود بہت سے لوگ وطن واپس آسکیں ۔ نیب کی طرف سے اسحاق ڈار کی جائیداد کی قرقی کی کارروائی شروع ہوگئی ہے اور بینکوں ودیگر اداروں کو خطوط لکھ دیے گئے ہیں کہ اسحاق ڈار کے نام پر اثاثوں کی خرید و فروخت اور منتقلی نہ کی جائے۔ اسحاق ڈار نااہل قرار دیے گئے وزیر اعظم نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں۔ اسحاق ڈار کو احتساب عدالت نے بدھ 20 ستمبر کو طلب کیا تھا لیکن عدم پیشی پر ان کے وارنٹ جاری کردیے اور انہیں 25 ستمبر کو دوبارہ طلب کرلیا ہے ۔لیکن تین چار دن کے اندر ان کی وطن واپسی کا امکان نہیں ہے۔ اسحاق ڈار نے ابھی تک اپنے منصب سے استعفیٰ نہیں دیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ بھی یہی کہتے ہوں کہ میں کیوں استعفیٰ دوں۔
اس صورت حال میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کایہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ہماری حکومت عالمی سطح پر تماشا بن کر رہ گئی ہے اور ملکی وقار پر دھبا لگارہی ہے، حکمران عدلیہ اور اداروں کے بارے میں اپنا رویہ درست کریں۔ امیر جماعت اسلامی کا یہ کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ ہماری حکومت نے پوری دنیا میں خود کوتماشہ بنادیا ہے ،اس صورت حال میں عوام کی نظریں بار بار ملک کی عدلیہ اور فوج کی جانب اٹھنا ایک فطری امر ہے۔ اگرچہ ہماری عدلیہ نے آزادانہ طورپر فیصلے دینا شروع کردئے ہیں اور اس کے خوشگوار نتائج نظر آنا شروع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے عدلیہ سے عوام کی امیدوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی ہمارے نظام عدل میں بھی اصلاح کی بہت گنجائش نظر آتی ہے جس کا اندازہ مختلف عدالتوں سے جاری کئے جانے والے متضاد فیصلوں سے ہوتاہے ،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک عدالت کوئی حکم جاری کرتی ہے تو دوسری عدالت اس حکم کو معطل یا منسوخ کردیتی ہے۔
گیند کبھی اس کورٹ میں اور کبھی اس کورٹ میں۔ معاملات ٹلتے رہتے ہیں۔ اب اسحاق ڈار کے خلاف نیب عدالت نے ایک فیصلہ جاری کیا ہے۔ اسحاق ڈار دوسری عدالت سے رجوع کریں گے، ضمانت کرائیں گے یا مقدمہ لڑیں گے، نظر ثانی کی اپیل بھی ہوسکتی ہے۔ اس پورے عرصے میں اسحاق ڈاربدستور وزیر خزانہ کے منصب پر کام کرتے رہیں گے۔ عملاً تو نا اہل قرار دیے گئے وزیراعظم بھی لندن میں بیٹھ کر حکومت چلارہے ہیں اور موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میرے وزیراعظم تو نواز شریف ہیں۔ یعنی وہ بھی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے۔ جہاں تک اثاثے ضبط کرنے کی بات ہے تو اسحاق ڈار سمیت بہت سے حکمرانوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں اور عموماً دبئی میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو اثاثے ضبط ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے پاس بیرون ملک اتنے اثاثے ہوتے ہیں کہ وہ تو کیا ان کی اولاد بھی عیش کرسکتی ہے۔ البتہ خود اسحاق ڈار کو سوچنا چاہیے کہ ان پر جو الزامات ہیں ان کا حتمی فیصلہ ہونے تک وہ وزارت سے مستعفی ہوجائیں اور اگر دامن صاف ہوجائے تو پھر کسی منصب پر فائز ہوجائیں۔ لیکن یہ مشورہ تو ان کے لیڈر نواز شریف نے بھی نہیں مانا ورنہ کچھ عزت رہ جاتی۔ اسحاق ڈار کو خود شرم آنی چاہیے کہ ان کی گرفتاری کے لیے پاکستان میں ان کے گھر پر چھاپے پڑرہے ہیں۔اسحاق ڈار اگر اگلی پیشی پر بھی حاضر نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوجائیں گے لیکن ان کے لیے کسی دوسری عدالت سے ضمانت کرالینا شایدزیاد ہ مشکل نہیں ہوگا، بشرطیکہ وہ واپس آئیں۔ اس امر کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس عرصے میں اندرونی قرضوں کے علاوہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کشکول توڑنے کے بجائے پاکستان کو عالمی سود خوروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے یہاں تک حکومت کی جانب سے بڑے بلند بانگ دعووں کے ساتھ تعمیر کی جانے والی موٹر وے بھی اطلاعات کے مطابق گروی رکھی جاچکی ہے اور یہ قرضے ادا نہ ہوئے تو خدانخواستہ پاکستان کو دیوالیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے ان کی ان خدمات کے عوض کوئی عالمی سود خور ادارہ انہیں گود لے لے۔ وہ ایسے ماہر معاشیات ہیں جنہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں پاکستان کے سوا دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں صرف کی ہیں۔ بہر حال اب اگر وہ پہاڑ تلے آہی گئے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کب قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔ نیب عدالت نے نواز شریف اور ان کے بچوں کو بھی اپنی جائداد منتقل یا فروخت کرنے سے روک دیا ہے۔ لیکن جن کی جائداد اور اثاثے ملک سے باہر ہوں ان کو کیا فرق پڑے گا۔ اس حکم کا اطلاق نواز شریف کے صاحبزدوں پر بھی نہیں ہوسکے گا جو پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری عدالتیں ملکی خزانہ لوٹنے اورناجائز اثاثے بنانے کے الزام میںملوث مفرورین کو وطن واپس لاکرانھیں قرار واقعی سزا دینے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں ، اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ا یک عدالت سے سزا پانے کے بعد دوسری عدالت کے پیچھے چھپنے کی کوششوں اور اس طرح قانون اور عدالتی احکامات کو مذاق بنانے والے نام نہاد عوامی رہنمائوں کے حربے ناکام بنانے کے لیے کیا طریقہ کار وضح کرتے ہیں۔