میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کو نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے!

پاکستان کو نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے!

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۵ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نگران حکومت مختصر مدت کے لیے آئی ہے، جس کی بنیادی ذمہ داری انتخابات کے  لیے بھرپور معاونت فراہم کرنا ہے، ہم حکومتی نظام کارمیں بڑی تبدیلی نہیں لاسکتے، ہمیں صرف قواعد و ضوابط میں سنگین خلاف ورزی کی صورت میں مداخلت کا اختیار حاصل ہے۔ معمول کی پالیسیوں پر عمل پیرارہیں گے اور گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ نگراں وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسے ملک میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیادی ذمہ داری انتخابات کرانا ہے، اگر وزیراعظم اپنے اس بیان پر قائم رہتے ہوئے واقعی کسی بڑی تبدیلی کی منصوبہ بندی کا حصہ بننے سے انکار کر دیں تو شاید ملک میں انتخابات کے حوالے سے پانی جانے والی موجودہ بے یقینی کی صورت حال پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے، دراصل ہمارے ملک میں آئین وقانون کی بے قدری اس قدر عام ہوچکی ہے کہ عوام کسی بھی معاملے میں کسی کی بھی بات اس وقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے جب تک کہ وہ ہو نہیں جاتی، ہمارے ملک میں آئین وقانون کی بے قدری کی تازہ مثال جڑانوالہ کا دلخراش و دلآزار واقعہ ہے اس واقعے بلکہ سانحہ نے پاکستانی معاشرے کا کھوکھلا پن اوراربابِ اقتدار و اختیار کی سفاکی وعیاری کا پول بیچ چوراہے پر کھول دیا۔ اس موقع پر ایک جانب اسلامی تعلیمات و شعائر کا کھل کر مذاق اڑایا گیا اور دُنیا بھر میں ایک بار پھر پاکستان کے نام کو بٹہ لگا یا گیا تو دوسری جانب شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار سرکاری اداروں بالخصوص پولیس کی روایتی بے حسی، نااہلی اور اس کے افسرانِ بالا کی شاطرانہ چال بازیوں کی بھی قلعی کھل کر رہ گئی۔ یہ بھی طشت ازبام ہوا کہ عوامی خزانہ سے اربوں روپے کی خطیر رقم لٹانے کے بعد جو پولیس فورس تیار ہو رہی ہے وہ پیشہ ورانہ مہارت، تربیت اور اخلاق معیار کے زوال کی کن پستیوں کو چھو رہی  درحقیقت یہ اسلامی تعلیمات و پاکستانی آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قیام ہاکستان کے بعد آزاد وطن کو آزادی کے تقاضوں کے مطابق قومی منشور یعنی ایک عمرانی معاہدے کی ضرورت تھی قومی منشور خالص پاکستانی سوچ رکھنے والے رہنما ہی دے سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے آزادی کے بعد جن طبقات نے اقتدار سنبھالا ان میں اکثریت انگریز نواز تھی- لیاقت علی خان انگریز کے نوآبادیاتی نظام کے بجائے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق پاکستانی نظام تشکیل دینا چاہتے تھے جو انگریز نواز لوگوں کو منظور نہیں تھا اس لیے ان کو منصوبہ بندی کرکے شہید کردیا گیا اور پاکستان میں انگریزوں کا نوآبادیاتی نظام جاری رکھا گیا جو 76 سال کی مسلسل ناکامیوں کے باوجود آج بھی چلایا جا رہا ہے۔ یہ نظام استحصالی ظالمانہ اور سنگدلانہ ہے جو سرمایہ داروں جاگیر داروں اور سامراجی ملکوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے- 1973 کا آئین متفقہ تھا۔ اس آئین کے نفاذ کے بعد انگریزوں کے نظام کی تبدیلی کے امکانات پیدا ہوئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو آئین کے مطابق پاکستان کے ریاستی نظام کی تشکیل نو کر رہے تھے لیکن  ا سٹیٹس کو کے نظام کو جاری رکھنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا آئین تو عوام کی آرزووں کے مطابق ہے مگر پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی اور سیاسی و معاشی نظام نوآبادیاتی ہیں -یہ وہ بنیادی قومی تضاد ہے جس نے پاکستان کو جمود کا شکار کر رکھا ہے۔ نوآبادیاتی نظاموں کی وجہ سے ایک جانب اجارہ داریاں اور دوسری جانب محرومیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو بربادی سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ ایسا قومی منشور تشکیل دیا جائے جو پاکستان کو مضبوط مستحکم اور خوشحال بنا سکے۔ پاکستان میں ایک متبادل نظام کی ضرورت کا اظہار طویل عرصے سے اہل عمل ودانش کرتے رہے ہیں اور اس کے لیے پاکستان جاگو تحریک سمیت کئی تنظیموں اور دانشوروں نے اس حوالے سے سنجیدہ کاوشیں کی ہیں۔اس سلسلے میں لاہور میں قومی مجلس مشاورت کے اجلاسوں میں بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں،حال ہی قومی مجلس مشاورت نے لاہور میں اپنے اجلاس میں قومی منشور کے سلسلے میں سنجیدہ غور وفکر کرتے ہوئے پاکستان بچاو منشور مرتب کیا ہے جس میں کہاگیاہے کہ انگریزوں کے نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے خدا نخواستہ پاکستان کے اندر سے ٹوٹنے کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں،اور اب ایک قومی منشور ہی پاکستان کی بقا کو یقینی بنا سکتا ہے۔
قومی مجلس مشاورت کے مرتب کردہ پاکستان بچاؤ منشور میں کہا گیا ہے کہ انگریز کے بنائے ہوئے 4 مصنوعی صوبے ختم کر کے ہر انتظامی ڈویژن کو صوبے کا درجہ دیا جائے۔ ہر صوبے کا گورنر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب کیا جائے۔ صوبوں میں صوبائی اسمبلیوں کی بجائے گورنر کی مشاورتی کونسل ہو جس میں متعلقہ ڈویڑن کے منتخب ضلعی ناظم شامل ہوں۔ ہر ضلع میں بااختیار لوکل گورنمنٹ منتخب کی جائے جس کو مالی وسائل منتقل کیے جائیں۔پارلیمانی نظام مسلسل طور پر ناکام ہو رہا ہے اس کی بجائے صدارتی نظام نافذ کیا جائے۔ اچھے اور معیاری نظام حکومت کی بنیاد آئین اور قانون کی حکمرانی فوری اور سستا انصاف (سول مقدمات کا فیصلہ 3 ماہ میں اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ میں) تعلیم و تربیت اور ہنر مندی پر زور, اور ہر شہری کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع فراہم کرنے کے بنیادی ستونوں پر کھڑی کی جائے۔ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرکے اسے عوام دوست بنایا جائے-شفاف اور یکساں احتساب کا نظام تشکیل دیا جائے۔ انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کرائے جائیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنیوالے افراد کا کوٹہ مقرر کیا جائے اور عوامی نمائندوں کی اہلیت مقرر کی جائی تاکہ پارلیمنٹ سرمایہ دار طبقے کی بجائے تمام طبقات کی نمائندہ بن سکے۔ غریب عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے۔ ایسی اشیا کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے جو عیش و عشرت کے زمرے میں آتی ہیں۔ نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ شرح نمو اور برآمدات میں اضافہ کیلئے معاونت کر سکیں۔ بیوروکریسی کو عوام دوست بنانے کے لیے پروٹوکول اور ناجائز مراعات ختم کی جائیں۔نوجوانوں کو سول ڈیفنس کی تربیت دی جائے تاکہ دفاعی بجٹ کا بوجھ کم کیا جاسکے۔ فرقہ واریت پر پابندی لگائی جائے مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے۔ سادگی اور کفایت شعاری کا کلچر اپنایا جائے اور شہریوں میں صوبائی اور علاقائی تعصب ختم کرکے وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار یا بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ دیہاتی اور شہری جائیداد کی حد مقرر کی جائے۔ زرعی اراضی بے زمین کسانوں میں آسان قسطوں پر تقسیم کی جائے۔ ہر بے گھر خاندان کو 3 سے 5 مرلے کا گھر آسان اقساط پر دیا جائے۔ غیر ملکی بینکوں میں محفوظ پاکستان کی لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائی جائے۔ا سمگلنگ کے خاتمے کی ذمہ داری پاک فوج کے سپرد کی جائے۔ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے -کم از کم تنخواہ 30 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ روپے مقرر کی جائے۔اطلاعات کے مطابق پاکستان کی متعددسیاسی سماجی اور فلاحی تنظیموں اور عوام دوست دانشوروں نے قومی مجلس مشاورت کے مرتب کردہ پاکستان بچاو منشور سے اتفاق کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نگراں حکومت کو اپنی غیر جابنداری کی بنیاد پر اس منشور کا جائزہ لینا چاہئے اور اس پر وسیع البنیاد اتفاق رائے حاصل کرنے کیلئے سیمینارز اور مباحثوں میں اسے پیش کرکے اسے قبول عام بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ اس ملک کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں