افسران کو اصل محکمے میں بھیجنے کے معاملے پر سندھ حکومت کی ایک اور قلابازی
شیئر کریں
سندھ میں گریڈ18کے افسر مہدی علی شاہ کی بھی ایک تاریخ ہے وہ آج کل ضلع کورنگی میں ڈپٹی کمشنر کے طورپرکام کررہے ہیں مگروہ براہ راست گریڈ17میں کس طرح اسسٹنٹ کمشنر بنے؟ اس کی طویل اوردلچسپ کے علاوہ متنازع تاریخ ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ بینظیربھٹو جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں تو سیشن جج آغارفیق احمد سپریم کورٹ کے سینیارٹی کے لحاظ سے ساتویں نمبر کے جج سید سجاد علی شاہ کوپہلے عام فلائٹ سے سکھر لے گئے وہاں سے وہ دوسری فلائٹ لے کراسلام آباد گئے وہا ں ایک غیر سرکاری گھرمیں رکے۔ آغا رفیق احمد نے اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو اورآصف علی زرداری سے بات کی اور پھران سے سید سجاد علی شاہ کی ملاقات کرائی اورچند روز میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے جونیئر جج سید سجاد علی شاہ کوچیف جسٹس آفس پاکستان بنادیا۔ اسی چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے ایک دن وزیراعظم بینظیربھٹو سے کہاکہ ان کے داماد مہدی علی شاہ کوبراہ راست اسسٹنٹ کمشنر بنایا جائے، محترمہ نے ہاں کردی۔ لیکن چونکہ ارکان قومی اسمبلی ،ارکان سندھ اسمبلی کی اولادوں کی بھی فہرستیں بننی تھیں، اس لیے اس میں دوتین ماہ کا وقت لگ گیا۔ پھرچیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے دوسری مرتبہ وزیراعظم سے کہا، ان کوپھروہی جواب ملا کہ صبرکریں مگرچیف جسٹس کوصبرنہیں ہورہاتھا۔ اس لیے غصے میں بینظیر نے صرف چیف جسٹس کے داماد مہدی علی شاہ کا آرڈر نکالنے کے لئے اس وقت کے وزیراعلیٰ سید عبداﷲ شاہ کوحکم دے دیا۔ مہدی شاہ کواسسٹنٹ کمشنر بنادیاگیا اوربعد میں دیگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے بیٹوں کواسسٹنٹ کمشنر،ڈی ایس پی، ای ٹی او بنایاگیا۔اوریہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ مخدوم امین فہیم کے بیٹے شکیل الزماں کوجام صادق نے براہ راست اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کیا۔
مہدی شاہ کواسسٹنٹ کمشنر توبنادیاگیا لیکن چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے دل میں ناراضگی رکھ لی جو آگے چل کرپوائنٹ آف نوریٹرن تک جاپہنچی۔بہرحال مہدی شاہ ترقی کرتے کرتے اب جاکر گریڈ 19کوپہنچنے والے ہیں ۔آگے چل کرمہدی شاہ کی اہلیہ اورسیدسجاد علی شاہ کی بیٹی کاجب انتقال ہوگیاتو مہدی شاہ نے موجودہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ(عبداللہ شاہ کے فرزند) کی طلاق یافتہ بہن سے شادی کرلی۔ یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ کل مہدی شاہ کوعبداﷲ شاہ نے تقرری آرڈر دیااورآج عبداﷲ کے بیٹے مراد علی شاہ اسی مہدی شاہ کوبچانے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ مہدی شاہ کا نام ان102افسران کی فہرست میں ہے جن کوبراہ راست اسسٹنٹ کمشنر بنایاگیا تھا۔اس فہرست میں مخدوم امین فہیم کے دوبیٹے شکیل الزماں، عقیل الزماں جبکہ پیرپگارا کے معتمد خاص خان محمدمہر، غلام حیدر منگریو، چراغ الدین ہنگورو، بھی شامل ہیں۔ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک عجیب صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت سندھ نے صرف ایک افسر محمدخان رند کو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ضلع شرقی کے عہدے سے ہٹاکر گریڈ 16میں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیاہے۔سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کے بھانجے ارباب عطاء اﷲ کوسوئی گیس سے اسسٹنٹ کمشنر بنایاگیا لیکن موجودہ حکومت نے اسی ارباب عطاء اﷲ کویک جنبش قلم اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے سے ہٹاکر واپس سوئی گیس میں بھیج دیا۔اگراتنا ہی قانون پرعمل کرناتھا، اورضمیر زندہ ہوتا توتمام افسران کوہٹاکر سپریم کورٹ کے حکم پرعمل کیاجاتا ۔اب درون خانہ کہانی یہ ہے کہ حکومت سندھ نے فیصلہ کیاہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم کی 31 مارچ 2017ء کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیاجائے ،اس کے بعدسپریم کورٹ کوالٹی سیدھی کہانیاں بناکر ان بڑے آدمیوں کی اولادوں اوردامادوں کوبچایاجائے۔ اوراس مقصد کے لئے چاہے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح باربار توہین عدالت ہی کیوں نہ کرنا پڑے اوراسی نقطہ کو سامنے رکھ کرسرکاری وکلاء کوبھی ہدایات دی گئی ہیں ۔نیزافسران کوبھی خصوصی ٹاسک دیاگیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران اس طرح عدالت میں جائیں کہ ایک محکمے کا افسر عدالت میں جائے تودوسرا افسر کسی اجلاس یا چھٹی کا بہانہ بناکر غیر حاضرہو۔ اور31مارچ کوجب جسٹس امیرہانی مسلم کی ریٹائرمنٹ کے بعدنئے سرے سے کیس کی پیروی کی جائے اورکوشش کی جائے کہ ان افسران کوبچانے کے لئے قانونی راستے بنائے جائیں ،اس طرح جوافسران کمیشن پاس نہ کرسکے اوربراہ راست افسر بن گئے ان کوبچانے کے لئے حکومت سندھ نے ایڑھی چوٹی کا زورلگادیاہے کیونکہ اہم شخصیات کے بیٹے ،بہنوئی، داماد اس فہرست میں شامل ہیں۔
الیاس احمد