سیاستداں ہوش کے ناخن لیں
شیئر کریں
سینیٹ سے گزشتہ روز حلقہ بندیوں کا بل بھاری اکثریت سے منظور کیے جانے کے بعدبروقت الیکشن کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔ حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ 84 ارکان نے حق میں ایک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔سینیٹ میں حلقہ بندیوں کے بارے میں اس بل کی منظوری کے بعد بروقت الیکشن کے حوالے سے جو شکوک کے بادل چھائے تھے اب دور ہو گئے ہیں۔ الیکشن کمشن کو اب اتنا وقت مل گیا ہے کہ وہ حالیہ مردم شماری کے حوالے سے نئی حلقہ بندیاں کرکے قومی اسمبلی میں طے شدہ فارمولے کے مطابق نشستوں میں ردوبدل کر سکے گی۔
کئی ہفتوں کے سیاسی تعطل کے بعد اب اس بل کی منظوری جمہوری عمل کے لیے ایک اچھا شگون ہے۔ بروقت صاف و شفاف الیکشن کرانے کی راہ میں الیکشن کمیشن کے سامنے اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں ہے۔ اب گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔ جس نے اطلاعات کے مطابق اس حوالے س اپنی کارروائی کاآغاز کردیا ہے اور پروگرام کے مطابق15جنوری سے حلقہ بندیوں کاابتدائی کام شروع کردیا جائے گا،توقع کی جانی چاہئے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان اس حوالے سے اپنی ساری توانائی بروقت صاف و شفاف الیکشن کے انعقاد پر صرف کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ بعد میں کسی بھی طرف سے ان الیکشن پر یا اس کے نتائج پر انگلی نہ اٹھ سکے۔ یہ ہمارے سیاسی مزاج کا حصہ ہے کہ ہارنے والے عام طور پر الیکشن کے نتائج پر شور اٹھاتے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن ایسے انتظامات کرے کہ بعدازاں کسی کو شور مچانے کی نوبت ہی نہ آئے تو یہ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے اچھا ہو گا۔ اب یہ الیکشن کمیشن کا امتحان ہے دیکھنا ہے وہ اس میں کتنا کامیاب رہتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بھی بروقت منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں امید ہے الیکشن کمیشن کا ساتھ دیں گی تاکہ جمہوری عمل کا تسلسل جاری رہے اور انتخابات کا مرحلہ بھی بخیر و خوبی طے ہوسکے۔
الیکشن کمیشن نے ابتدائی طورپر نئی حلقہ بندیوں کے لیے صوبائی حکومتوں اورمحکمہ شماریات کو10 جنوری تک نقشے اور دیگرمواد فراہم کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ چیف الیکشن کمشنرکی سربراہی میں آئندہ عام انتخابات 2018 کے لیے الیکشن کمیشن کے ہنگامی اجلاس میں چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز، چیئرمین نادرا، سیکریٹری شماریات اور صوبائی الیکشن کمشنرزسے مشاورت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سیکریٹری الیکشن کمیشن بابریعقوب فتح محمد نے بتایا کہ سینیٹ سے گزشتہ روز حلقہ بندیوں کا بل بھاری اکثریت سے منظور کیے جانے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میںہونے والا یہ اجلاس عام انتخابات کی تیاریوں کی پہلی کڑی تھا، الیکشن کی تیاریوں کا کام شروع کردیا گیا ہے تاہم الیکشن کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کرسکتے۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں ریونیو باؤنڈریز منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اب 2018 کے عام انتخابات تک اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکے گی۔
بابریعقوب نے کہا کہ مردم شماری کی عبوری رپورٹ الیکشن کمیشن کو فراہم نہیں کی گئی، سیکریٹری شماریات نے بتایا کہ صدر مملکت نے ابھی تک آئینی ترمیم پر دستخط نہیں کیے، صدرکے دستخط سے بل ایکٹ بنے گا تو مردم شماری کے عبوری نتائج ملیں گے، قانون کے تحت ہم ساڑھے 3 ماہ میں حلقہ بندیاں مکمل کرلیں گے، الیکشن کمیشن نے 5 حلقہ بندی کمیٹیاں مقررکردی ہیں، حلقہ بندیوں کی تجاویزکے لیے 45 دن رکھے گئے ہیں، 3 صوبائی حکومتوں اورمحکمہ شماریات سے 10 جنوری تک نقشے اوردیگر مواد فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ مئی 2018 تک حلقہ بندی سے متعلق کارروائی مکمل کرلیں گے، اوراگرنقشے اوردیگر مواد جلد فراہم کردیئے گئے تو حلقہ بندیاں بھی پہلے ہوجائیں گی۔سیکریٹری الیکشن کمیشن نے یہ بھی بتایا کہ انتخابی فہرستوں کی نظر ثانی کے لیے درکار عملے کے لیے آئندہ ہفتے تک بتا دیا جائے گا، 75 لاکھ نئے ووٹرز کا اندراج بھی شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حساس پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے، لیکن اس کے لیے حکومتیں اپنے وسائل استعمال کریں گی۔
اس صورت حال میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن سے حتی الامکان تعاون کریں،یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ دیکھنے میںآرہاہے کہ پاکستان کی سیاست میں اب ایک نیاکھیل شروع ہوگیا ہے اور سیاست دان ایک دوسرے کو اس طرح دعوت مبارزت دے رے ہیں جس طرح اکھاڑے میں پہلوان ایک دوسرے کو للکارتے ہیں کہ ہمت ہو تو سامنے آؤ۔ نا اہل قرار دیے گئے میاں نوازشریف اب نظام عدل کی تحریک چلانے کا اعلان کررہے ہیں اور رانا ثنااللہ فرما رہے ہیں کہ یہ تحریک چلی تو پیپلز پارٹی ساتھ کھڑی ہوگی۔ ویسے تو رانا ثنا اللہ کے دعووں میں کوئی وزن نہیں ، پیپلز پارٹی کبھی بھی نوازشریف یا ن لیگ کی کسی تحریک میں حصہ لیتی نظر نہیں آتی کیونکہ اس طرح اس کی ساکھ مزید متاثر ہوگی۔ پیپلز پارٹی کی نظر یں تو مرکز میں اقتدار پر لگی ہوئی ہیں اور آصف زرداری کئی بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ آئندہ وزیر اعظم بلاول ہوگا جس نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو راغب کرنے کے لیے اپنے نانا کا نام اپنے نا م میں شامل کرلیا ہے اور بلاول بھٹو کہلاتا ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی ہر معاملے میں ن لیگ کی مخالفت ہی کرے گی، اس کے ساتھ نہیں اس کے سامنے کھڑی ہوگی۔ میاں نوازشریف کی تو مجبوری ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ان کو نا اہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا اور انہیں غیر امین و غیر صادق قرار دے دیا ہے۔اس لیے اب وہ نظام عدل کی تحریک کے نام پر درحقیقت عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کی تیاری کررہے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپتے ہوئے انصاف اور تحریک انصاف کے طعنے دیتے نہیں تھکتے۔ عدالت عظمیٰ سے عمران خان کی برات پر تو ان کی برہمی اور بڑھ گئی ہے۔ ان کے خیال میں عمران خان کو بری کرنا اور انہیں سزا دینا عدل نہیں بلکہ عدلیہ کے سامنے انصاف کے دو ترازو ہیں۔ نواز شریف یہ لاحاصل لڑائی لڑتے رہیں گے جس میں نقصان یک طرفہ ہے۔ وہ اور ان کے حواری یہ گلہ کرتے ہیں کہ نواز شریف کو ایک عرب ملک کا اقامہ رکھنے اور وہاں نوکری کرنے پر نکال دیا گیا۔ لیکن کیا یہ بات باعث شرم نہیں کہ پاکستان کا وزیر اعظم کسی دوسرے ملک میں نوکری کررہا تھا، خواہ تنخواہ وصول کی یا نہیں۔ اس پر کسی نے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا دوسری طرف سے ایک اور سیاسی پہلوان عمرا ن خان نیبلا لہراتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایک طرف سے نواز شریف نکلیں گے تو دوسری طرف سے میں نکلوں گا۔جبکہ طاہر القادری کہتے ہیں کہ ہم تحریک قصاص چلائیں گے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ تحریک عدل چلانے سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو تو عدل فراہم کردیا جائے، تحریک کا آغاز وہیں سے کیا جائے۔ طاہر القادری کے استغاثہ میں نوازشریف، شہبازشریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کو نامزد کیا گیا ہے اور اب وہ قصاص کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ذمے داروں کے تعین کے حوالے سے جسٹس نجفی کی رپورٹ بہت کچھ کہہ رہی ہے لیکن بنیادی بات تو یہ ہے کہ دفتر منہاج القرآن کے سامنے پولیس کے وحشیانہ حملے میں 14 افراد شہید ہوئے، ذمے داروں کو کیا سزا ملی؟ جن افراد کے نام سامنے آئے تھے انہیں ترقی دے کر ادھر ادھر کردیا گیا۔ وزیر اعلیٰ شہباز کے پرنسپل سیکریٹری کابھی بیرون ملک تقرر کردیا گیا جن کو اس دن نزلہ ہوگیا تھا۔ اب ن لیگ کے نا اہل صدر نوازشریف نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے۔ یہ فیصلہ تو 29 جولائی کوبھی کردیا گیا تھا تاہم شہباز شریف کو گمان ہے کہ وہ اگر پنجاب چھوڑ کر مرکز میں چلے گئے تو ان کے جاری کردہ منصوبے رک جائیں گے۔ بقول ان کے وہ تو صرف عوام کی خدمت کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ نوازشریف کے اس اعلان کو اقربا پروری کہا جاسکتا ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف خورشید شاہ کا اعتراض بڑا دلچسپ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ نواز شریف کون ہوتا ہے ایسا اعلان کرنے والا، اس کافیصلہ تو عوام کریں گے۔ لیکن خورشید شاہ نے شاید اپنے لیڈر آصف زرداری کے کئی بار دیے گئے بیانات نہیں پڑھے یا مخالفت برائے مخالفت کے چکر میں نظر اندازکرگئے جو کہہ چکے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم بلاول ہوگا۔ خورشید شاہ نے اس وقت زرداری سے کیوں نہیں کہا کہ تم کون ہوتے ہو یہ اعلان کرنے والے، اس کا فیصلہ تو عوام کریں گے۔ لیکن بات چونکہ ن لیگ کی طرف سے کی گئی ہے۔
اس لیے مخالفت کرنا ضروری ہے اور رانا ثنااللہ یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ خواب دیکھنے میں کوئی پابندی نہیں لیکن ہر کس وناکس سے بیان کرنا بھی ضروری نہیں۔ انتخابات پرامن طریقے سے ہوگئے تو اس کے بعدبھی بڑا اودھم مچے گا، نئے دنگل ہوں گے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے کہ ’’ ہم اتنے سیدھے نہیں کہ دوسروں کی حکومت چلنے دیں‘‘۔ اس سے مستقبل قریب میں ن لیگ کے عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اگر عام انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ کے بجائے کسی اور جماعت نے حکومت بنا لی تو اسے چلنے نہیں دیا جائے گا۔ سعد رفیق یقیناًسیدھے نہیں بہت ٹیڑھے ہوں گے لیکن اپنی اس ٹیڑھ کے نتائج پر بھی انھیںغور کرلینا چاہئے۔ کسی دوسری جماعت کی حکومت آئی تو ظاہر ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں ہی سے آئے گی۔ تو کیا ن لیگ کو عوام کا فیصلہ قبول نہیں ہوگا؟ فی الوقت تو ایک دوسرے کو گیدڑ اور بزدل قرار دینے کی بیت بازی ہو رہی ہے۔ نوازشریف اور عمران خان آپس میں بیٹھ کر طے کرلیں کہ گیدڑ کون ہے اور کون نہیں۔ یہ فیصلہ خود کرلیں ورنہ کوئی اور کر گزرے گا اوراگر یہ فیصلہ کسی اور نے کیاتو پھر نواز شریف چیخیں گے چلائیں گے اور اپنے بال نوچتے ہوئے کہیں گے کہ مجھے عوام کایہ فیصلہ منظورنہیں۔
اب جبکہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں دانشمندی کاتقاضہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور خاص طورپر خود کو وفاق کی علمبردار ہونے کی دعویدار سیاسی جماعتوں کے رہنما ہوش کے ناخن لیں اور تحریکوں کے چکر چلانے کے بجائے عوام کے سامنے جاکر اپنی کارکردگی پیش کرنے کی تیاری کریں کیونکہ اب اس ملک کی قسمت کافیصلہ کوئی انگلی اٹھانے اور دکھانے والا نہیں بلکہ عوام کریں گے۔