خاموشی ذریعہ نجات
شیئر کریں
ابواُمامہ
کون ہے جویہ خواہش نہ رکھتاہوکہ اُسے دُکھ،پریشانی،غم،مصیبت،رنج وملال سے نجات ملے۔اوروہ پُرسکون،مطمئن اورخوش وخرم رہے،اسی چاہت میں اس کی ساری محنتیں اور کوششیں مگن ہیں کہ اذیت سے بچ سکے اور اطمینان اورخوشیوں سے ہمکناری ہو،لیکن دن رات کی انتھک محنت کے باوجودسب دکھی ہیں سب رنج وملال سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادیہ ہے کہ ہم نے اسوہ¿ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کونمونہ ہی نہیں بنایااگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کواہمیت وتوجہ دی ہوتی اورلائق عمل سمجھاہوتاتوہم واقعی غمِ جہاں سے نجات پاتے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافرمانِ عالی ہے: ”جوخاموش رہااس نے نجات پائی“ (ترمذی)انسان کاسب سے بڑانافرمان عضواس کی زبان ہے اسی کے ذریعہ شروفسادپھیلتاہے اورجھنم میں گرائے جانے کابڑاسبب انسان کی گفتگوئیںبھی ہیں ،کثیراحادیث میں زبان کوقابومیں رکھنے اورکلام میں احتیاط برتنے کے مضامین موجودہیں۔موجودہ معاشرے میں ہرآنے جانے والے پر،ملنے جلنے والے پر،دن رات تبصرہ کرنااپناحق سمجھاجاتاہے اورلوگ اپنااکثروقت لایعنی،بے ہودہ گفتگو،چغل خوری، غیبت،دوسروں کے عیوب تلاش کرنے،محض ہنسی مذاق کی خاطرمبالغہ آمیزگفتگو کرنے،اپنی بڑائی دوسروں کی گستاخی وغیرہ میں ضائع کردیتے ہیں۔حدیث کے الفاظ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ہم زبان سے کچھ بات نہ کریں بالکل گونگے بن کررہ جائیں،بلکہ مقصودیہ ہے کہ کیاکچھ بولناہے اورکہاں کہاں خاموش رہناہے؟جہاں ضرورت ہوتوگفتگوکی جائے اوراس میں بھی خیرکے پہلوکوملحوظ رکھاجائے شرسے بچاجائے۔کلام ہمیشہ بھلائی کاہوبلاضرورت کلام کوطویل کرنے سے احترازکیاجائے۔اوراپنی زبان کوجھوٹ بولنے سے،غیبت کرنے سے،چغلخوری سے،کسی کی دل آزاری سے،گستاخانہ گفتگوسے،دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے سے،شکوے شکایات سے،کثرت سوال اورکٹ حجتی سے،شورشرابے اوربے مقصدباتوں سے بچایاجائے۔یہی مقصود ہے جب ان چیزوں سے خاموشی اختیار کی جائے گی توسکون وچین نصیب ہوگااورلڑائی جھگڑے،فتنہ وفسادسے نجات ملے گی۔زبان کے اسی فتنے سے بچنے کی زبردست تحریک دینے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”جوشخص مجھے ان دوچیزوں کی حفاظت کی ضمانت دے جواس کے دونوں جبڑوںکے درمیان ہے (یعنی زبان) اور جو دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے(یعنی شرمگاہ) تومیں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں“۔(صحیح بخاری)اگرہمیں جنت مطلوب ہے اورضمانت دینے والے بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں توہمیں ہرکلام سے قبل سوچناہوگاکہ اس کاکیافائدہ اور کیا نقصان ہے۔اوربلاضرورت کلام سے اجتناب کرناہوگاتاکہ قیمتی زندگی کاکوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ورنہ جس قدرباتیں زیادہ ہونگی اسی قدران میں غلطیوں کاامکان بھی زیادہ ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ جن باتوں کے کرنے سے روکاگیاہے جن پرسکوت اختیارکرنے کونجات کاباعث بتلایاگیاہے ان سے کس طرح بچاجائے اورزبان کوکس طرح تالا لگایا جائے؟ تو پہلے یہ ذہن نشین کرلیاجائے کہ ہماری ہربات ریکارڈکی جارہی ہے اورفرشتے لکھ رہے ہیںارشادباری تعالیٰ ہے:”کوئی لفظ انسان کی زبان سے نہیں نکلتاکہ جسے لکھنے کے لئے حاضرباش نگران موجودنہ ہو“(سورة:ق)یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی خفیہ پولیس ہیں جس طرح دنیامیں خفیہ پولیس کسی کاتعاقب کررہی ہوتووہ کس درجہ محتاط ہوجاتاہے۔ٹیلی فون ٹیپ ہورہاہوتوگفتگومیں احتیاط برتی جاتی ہے اسی طرح یقین رکھاجائے فرشتے ہماری ہربات کومحفوظ کررہے ہیںاوراللہ تعالیٰ ہرجہاں،ہرمقام،ہروقت ہمارے ساتھ موجودہے اورہماری پوشیدہ باتوں حتّٰی کہ سرگوشیوںکوبھی سن رہے ہیں اورمحفوظ کررہے ہیں اورآخرت میں ان تمام باتوں کاحساب بھی دیناہوگا۔