ایرانی خواتین کے بال حکام کے لیے وبال اور عوامی مطالبات کی علامت بن گئے
شیئر کریں
تہران میں زیر حراست نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت نے ایران کے اندر اور بیرون ملک کھلبلی مچادی۔ایران کے اندر اور باہرخواتین سمیت لاکھوں افراد امینی کے قتل کے بعد شدید غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔ لوگ مختلف طریقوں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ شاید ان میں سب سے نمایاں وہ احتجاجی مظاہرے ہیں جو تہران اور ایران کے دیگر شہروں میں 7 روز سے جاری ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران ریاستی سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جب کہ ایرانی سکیورٹی نے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ ایران میں اخلاقی پولیس کی جانب سے خواتین پر نقاب کی پابندی اور پردے کی صحیح تعلیمات پر عمل نہ کرنے والی خواتین کے ساتھ اس کے پرتشدد سلوک کی مذمت کے لیے ایران میں متعدد خواتین نے اپنے سروں کے اسکارف بھی جلا لیے ہیں۔ ایران اور بیرون ملک خواتین نے بھی اپنے بال کٹوانے شروع کر دیے تاکہ ایران میں خواتین پر ہونے والے جبر کو ظاہر کیا جا سکے۔ اسی تناظر میں دنیا بھر کے کارٹونسٹوں نے ایران میں خواتین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار ان کے بالوں والی ڈرائنگ کے ذریعے کیا، جو تہران کی حکومت کے لیے باعث تشویش بن گیا ہے۔ اس تناظر میں، ٹویٹر پر شائع ایک کارٹون میں ایک خاتون کواپنے بالوں کو کنگھی کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس کارٹون میں خاتون کے بالوں میں کنگھی کے ذریعے سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور ان کی باقیات کو تلف کرتے دکھایا گیا ہے۔ ایک اور ڈرائنگ میں ایران کا نقشہ دکھایا گیا، جس کے اوپر ایک عورت کا سر لٹکا ہوا تھا، جس نے ملک کو شمال سے جنوب تک ڈھانپ رکھا تھا۔ ایرانی خواتین کے کھلے بال اب ایرانیوں کے مطالبات کی علامت بن چکے ہیں، جو خواتین کے مسائل سے آگے بڑھ کر ایرانی عوام کی آزادی، جبر اور دیگر شکایات کی عکاسی کرتے ہیں۔