میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق خطرات سے نمٹنے کیلئے معاہدے کی تجدید پر بھارت کی رضامندی

ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق خطرات سے نمٹنے کیلئے معاہدے کی تجدید پر بھارت کی رضامندی

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۴ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت نے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرات سے نمٹنے کے دوطرفہ معاہدے میں توسیع کی پاکستانی تجویز تسلیم کرلی ہے اوردونوں ملک ایٹمی حادثات سے متعلق معاہدے میں 5 سال کی توسیع پر متفق ہوگئے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اس معاہدے پر 2007 میں دستخط کیے گئے تھے اور 2012 میں اس معاہدے میں 5 سال کی توسیع کی گئی تھی۔دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری اعتماد سازی کے اقدامات کا حصہ ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان امن و استحکام اور سلامتی کو فروغ دینا ہے۔معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق کسی حادثے کی صورت میں اپنے متعلقہ دائرہ اختیار اور کنٹرول کے تحت ایک دوسرے سے فوری معلومات کے تبادلے کے پابند ہیں۔
پاک بھارت باہمی تعلقات میںعدم تسلسل کا واحد عنصر حالات کی غیر یقینی نوعیت ہے۔ اس کی وجہ حل طلب سرحدی تنازعات، جارحانہ عسکری رجحان اور دونوں ملکوں کے مابین دیگر نازک معاملات ہیں جو کسی بھی وقت بگڑ سکتے ہیں۔لیکن بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروںکے خطرات اور حادثات سے نمٹنے کے دوطرفہ معاہدے میں توسیع پر رضامندی کے اظہار سے ظاہر ہوتاہے کہ دونوں ملکوں میںمسلسل بے یقینی کے باوجود دونوں ممالک نے کشیدہ حالات کے باوجود دو طرفہ معاملات کو کسی حد تک آگے بڑھاتے رہنا سیکھ لیا ہے۔ تاہم، جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک مقابلہ ہمیشہ ایک حقیقت رہے گا، چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسے معاملات میں اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے جو دونوں ممالک کے لیے یکساں خطرات پیدا کرتے ہیں، جیسے ‘سائبر اسپیس اور ایٹمی دہشت گردی۔ 1998 کے ایٹمی تجربات کے بعدجب بھارت اور پاکستان “نیوکلیئر کلب” کا حصہ بن گئے تو پاک و ہند تعلقات مزید غیر یقینی کا شکار ہوئے۔ اگرچہ گزشتہ 18 سال میں اس دفاعی صلاحیت کی وجہ سے خطّے میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی، لیکن اس عرصے میں دونوں ملکوں کو مختلف بحرانوں اور ایٹمی خطرات کا سامنا رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں غلط تصورات اور متضاد بیان بازی کی وجہ سے بدلتے ہوئے ایٹمی رویّے ابھی بہت غیر مستحکم ہیں۔ماضی میں عسکری اور سیاسی اعتماد سازی کے اقدامات نے پاک و ہند تعلقات میں ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ مگر حال ہی میں اعتماد سازی کے حوالے سے بھارت کے رویے میں تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے اس سارے عمل کے بیکار ہو جانے کا خدشہ ہے۔
یہ درست ہے کہ ماضی میں اعتماد سازی کی کوششیں برصغیر میں پیدا ہونے والے بحرانوں کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہیں، مگر ان اقدامات کی وجہ سے سرحد پار روابط اور شفافیت میں بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے غیر ارادی کشیدگی پیدا ہونے کے امکانات میں کمی ہوئی۔مثلاً 1998 میں پاکستان اور بھارت نے ایٹمی تنصیبات اور سہولتوں کے خلاف حملوں کی حرمت پر ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت ہر سال دونوں ملک ایک دوسرے کو اپنی ایٹمی تنصیبات کی فہرستیں فراہم کرتے ہیں۔ سیاسی اور عسکری بحرانوں کے باوجود یہ تبادلہ 1998 سے باقاعدگی سے چلا آ رہا ہے۔اعتماد سازی کی ایک اور کامیاب مثال کا تعلق میزائل تجربات سے ہے؛ 2002 میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت پاکستان اوربھارت کوئی بھی میزائل تجربہ کرنے سے پہلے دوسرے ملک کو پیشگی اطلاع دیتے ہیں۔تاہم عالمی سطح پر سکیورٹی خطرات کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے اور ان تبدیلیوں کا اثر جنوبی ایشیا پر بھی براہ راست پڑتا ہے۔ اگرچہ جنوبی ایشیا میں “اسٹریٹجک” مقابلہ مستقل برقرار ہے، تاہم “اسٹریٹجک” استحکام کے لیے باہمی اعتماد اور روابط قائم کرنا ضروری ہے۔سائبر اسپیس ایک ایسا معاملہ ہے جہاں باہمی تعاون پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اگر سائبر اسپیس کے امور میں بھارت اور پاکستان شفافیت اپنائیں تو غیر ارادی حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔اگر دونوں ملک سرکاری سطح پر ایک دوسرے سے عہد کریں کہ وہ کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے کی تنصیبات پر حملہ نہیں کریں گے تو دونوں ریاستوں کے درمیان اعتماد سازی کو فروغ حاصل ہو گا۔ایٹمی تنصیبات اور سہولتوں کے خلاف حملوں کی حرمت پر معاہدے کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کی ایٹمی سہولتوں پر حملے کی ممانعت پہلے ہی قبول کر چکے ہیں، مگر اس معاہدے میں حملے کی نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔اس معاہدے میں کھلے الفاظ میں سائبر حملوں پر پابندی کو شامل کرنا چاہیے اور اس معاہدے کے دائرہ کار میں ان اداروں کو بھی شامل کرنا چاہیے جو اس وقت ایٹمی کمپلیکس کا حصّہ نہیں ہیں، جیسے کہ جوہری کمانڈ اور کنٹرول کا نظام، جس میں اہم کمپیوٹرز اور ”ارلی وارننگ سسٹمز “شامل ہیں، یعنی وہ دفاعی تنصیبات جو دشمن کے حملے کی صورت میں ملک کی فوج کو فوری اطلاع دے دیتی ہیں، تاکہ حملے کو ناکام بنایا جا سکے۔ایٹمی دہشت گردی ایک اور ابھرتا ہوا خطرہ ہے۔ اس معاملے میں پاکستان عالمی سطح پر توجہ کا مرکز رہا ہے، جس کی بنا پر اس کی جوہری سیکورٹی کو مسلسل بہتر سے بہتر بنایا گیا ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کی بہترین جوہری سیکورٹی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم بھارت کی جوہری سیکورٹی تسلی بخش نہ ہونے کے باوجود عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ نہیں بنی۔ایسے دُہرے معیار کی وجہ سے ممکنہ خطرات کو جھٹلانے سے خطّے میں طاقت کا توازن بگڑے گا۔ ایک ملک سے چوری شدہ ایٹمی مواد اگر دوسرے ملک میں استعمال ہوا تو اس سے ایک بڑا بحران شروع ہو سکتا ہے۔ ایسی چوری یا حادثے کو غلط فہمی سے ایٹمی حملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ایسے میں بات چیت اور تعاون کرنے کے کھلے راستوں کا موجود ہونا نہایت اہم ہے تاکہ ایسے چوری کے واقعات کے بعد الزام تراشی کے بجائے جلد تحقیق کی جا سکے۔ ایسے باہمی تعاون کے اقدامات سرحدوں سے شروع کیے جا سکتے ہیں تاکہ ایٹمی اور تابکار مواد کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔ اور اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو دونوں ملک ایک دوسرے کو فوری مطلع کریں تاکہ بین السرحدی اثرات کے پیش نظر جلد از جلد مشترکہ کارروائی شروع کی جا سکے۔اعتماد سازی کے اقدامات برقرار تب رہتے ہیں جب ممالک باہمی طور پر ان کی کامیابی چاہتے ہوں اور یہ اقدامات ان ملکوں کی قومی سلامتی پر مبنی پوزیشنز کو چیلنج نہ کریں۔بظاہر بھارت اس وقت ایٹمی سیکورٹی سے متعلق اعتماد سازی کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ مستقبل میں جوہری دہشت گردی جیسے حساس مسائل پر تعاون خاصا مشکل ہوگا، تاہم عالمی سطح پر اُبھرتے ہوئے ایٹمی سیکورٹی خطرات اور اندرونی دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر یہ بھارت کے اپنے مفاد میں ہوگا کہ وہ باہمی انحصار کے راستے تلاش کرے تاکہ دونوں ملک ان اہم امور پر تعاون کر سکیں۔
اس کے ساتھ ہی پاک فوج کی قیادت کو بھارت کی جانب سے ملنے والے اس مثبت اشارے پر مطمئن ہوکر نہیں بیٹھنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بھارتی قیادت کشمیر میں میں اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے کنٹرول لائن پر کشیدگی بڑھا سکتا ہے، ایسے میں پاکستان کو انتہائی بدترین صورتحال کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان، چین اور مسلم دنیا میں اپنے چند دوستوں کی جانب سے سفارتی حمایت کا سہارا لے سکتا ہے، تاہم اسے زیادہ توجہ اپنی دفاعی تیاری اور اپنی سفارت کاری پر مرکوز رکھنی چاہیے، ہمیں ردعمل کے لیے ایک ایسی پالیسی بنانی چاہیے، جس سے نہ صرف حالیہ خطرہ کچھ کم ہو بلکہ اس سے کشمیریوں کو بھی یہ محسوس نہ ہو کہ انھیں پس پشت ڈالا جارہا ہے۔تاہم پاکستان کو اپنے دفاع کی مکمل تیاری کے ساتھ ہی بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے کیونکہ دو جوہری ہتھیاروں سے مسلح پڑوسی تعلقات میں کشیدگی برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، تاہم کشمیری رہنماو¿ں کو بھی اس مسئلے کو حل کرنے عمل میں شامل کیاجانا ضروری ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں