میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جمہوریت ہے کہاں؟

جمہوریت ہے کہاں؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۳ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

برطانیہ نے دولت مشترکہ میں شامل ممالک کے عوام کوجمہوریت کی حقیقی روح اور فوائد سے محروم کرنے اور جاگیرداری نظام کو دوام بخش کر اپنے غلام ممالک کے عوام کو ذہنی غلامی میں مبتلارکھنے کے لیے ’’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘‘ کانام نہاد ’’جمہوری‘‘ فارمولا دیا تھا۔ اس فارمولے کے مطابق مدمقابل امیداواروں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو حق نمایندگی مل جاتا ہے۔ بس حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ لینا ضروری ہوتا ہے، اکثریتی ووٹ نہیں۔ اس فارمولے کی وجہ سے چھوٹی پارٹیاں ’’شفاف‘‘ نمایندگی کے دائرے سے باہر ہوجاتی ہیں اوراس فارمولے کے تحت بعض اوقات کسی بھی حلقے میں پڑنے والے 100 ووٹ میں سے صرف 30 ووٹ حاصل کرنے والا فرد بھی کامیاب اور حلقے کی نمائندگی کااہل قرار پاتاہے جبکہ حلقے کے عوام کے 70فیصد لوگ اس کے مخالف ہوتے ہیں لیکن یہ 70فیصد ووٹ چونکہ کئی مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کو ڈالے گئے ہوتے ہیں اس لیے حلقے کے70فیصد عوام کی آواز پر30فیصد کی آواز غالب آجاتی ہے،مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت اس کامنہہ بولتا ثبوت ہے جو مجموعی طورپرڈیڑھ کروڑسے بھی کم ووٹ لے کرخود کو 20کروڑ عوام کی نمائندہ ظاہر کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتی،اس فارمولے کے طفیل طاقتور اقلیت اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جو ذات برادری اور فرقے وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم پیدا کرکے انتشار پھیلانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اس فارمولے میں دراصل انگریز کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ پالیسی کو جمہوری شکل دی گئی۔ اس صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلی کی 80 فی صد نشستوں پر صرف ایک حلقے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو کامیاب قرار دینے کے بجائے ’’Run off Election‘‘ کا نظام متعارف کرانا انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔ اس طرز انتخاب میں عوام کو پہلے مرحلے میں متعدد میں سے2 کو منتخب کرنے کا اختیار ملے گا۔اس طرح نہ صرف نمایندگی حاصل کرنے والے کو اکثریتی رائے حاصل ہوگی بلکہ انتخابات میں دھاندلی اور دھوکا دہی بھی دشوار ہوجائے گی۔ اس طرز انتخاب کے نتیجے میں مختلف گروہوں کے مابین اکثریت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات اور گفت و شنید کی راہیں بھی کھلیں گی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ چھوٹی پارٹیوں کو دیوار سے لگانے کے باعث بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مختلف سیاسی موقف رکھنے والی پارٹیوں کو بھی ووٹروں کے تناسب سے منتخب ایوان میں نمائدگی حاصل ہونی چاہیے۔ ’’متناسب نمایندگی‘‘ کے اصول کے مطابق مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے ہارنے والے امیدواروں کے حصے میں بھی 20 سے 25 فیصد نشستیں آسکتی ہیں۔ووٹوں کی فی صد کے اعتبار سے سیاسی جماعتوں کو قومی اسمبلی میں حاصل ہونے والی نشستیں عوامی رائے کی حقیقی عکاس ہوں گی۔ پیپلز پارٹی نے 2002 کے انتخابات میں ق لیگ سے قومی اسمبلی کی کم نشستیں حاصل کیں جب کہ اس نے ووٹ ق لیگ سے زیادہ حاصل کیے تھے۔ اسی طرح 2013کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے مسلم لیگ ن کے بعد تحریک انصاف دوسرے نمبر پر تھی جب کہ قومی اسمبلی میں حاصل کردہ نشستوں کے اعتبار سے اس کا نمبر تیسرا رہا۔
عوام کے دروازے تک انصاف کی فراہمی کسی بھی مہذب معاشرے میں زندگی اور موت کا سوال تصور ہوتا ہے۔ اگر نظام میں عوامی شمولیت ہی کو یقینی نہ بنایا جائے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل نہ کیا جائے تو جمہوریت محض ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ فعال بلدیاتی حکومت سے نظام میں عوامی شمولیت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ مختلف سماجی گروہ جب نظام کا حصہ بنتے ہیں، اسے اپناتے ہیں اور ان کے مابین مسائل حل کرنے کے لیے گفت و شنید کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں سماجی ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مضبوط ہوتا جاگیرداری نظام جدید دنیا میں ہمیں اندھیروں کا قیدی بنائے ہوئے ہے۔ہماری ناقص جمہوریت داخلی اختلافات کو ہوا دینے اور نظام حکومت کو کمزور کرنے کی بنی بنائی ترکیب ہے۔ اگر بلدیاتی حکومتوں کا نظام کے ساتھ ساتھ ’’متناسب نمایندگی‘‘ کا اصول نافذ نہیں کیا گیا تو ملک میں حقیقی جمہوریت کا نفاذ اگلے 100برس میں بھی ممکن نہیں ہوگا۔ یہی اصلاحات جاگیردارانہ نظام کے مقابلے میں عوام کو بااختیار بنائیں گی، جمہورت کے نام پر عوامی امنگوں کا جو تمسخر اڑایا جاتا ہے اس سے نجات ملے گی اور ملک حقیقی جمہوریت کے ثمرات حاصل کرنے کے قابل ہوسکے گا۔
یہ کیسا المیہ ہے، کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم قومی مسائل اور سیاسی معاملات پر بحیثیت ایک قوم کبھی نہیں سوچتے، ہماری سوچ اپنی پسندیدہ شخصیت اور پارٹی تک محدود رہتی ہے۔ چند دن قبل ایک ٹی وی پر ’’جمہوریت نہیں تو پھر کیا؟ کے موضوع پر طلبہ کی رائے طلب کی گئی، طلبہ کے جوابات بڑے فکر انگیز تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی طالب علم نے بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی تعریف نہیں کی۔ کچھ طالب علموں نے جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی قومی خدمات کا ذِکر کیا اور ان کے دور حکمرانی کو بہتر قرار دیا ۔ طلبہ کے جوابات سیاست دانوں اور جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو دعوت فکر دیتے ہیں مگر المیہ یہ بھی ہے کہ سیاست دان اور دانش ور طبقہ انا کے گنبد میں قید ہے جہاں ان کی آواز کی بازگشت کے سوا کوئی اور آواز سنائی نہیں دیتی۔
میاں نواز شریف تین بار وزارت عظمیٰ کی مسندپر جلوہ افروز رہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے ان کے اقتدار کا دورانیہ تیس پینتیس سال کے لگ بھگ ہے مگر اتنے طویل عرصے میں انہوں نے کوئی ایسا کام سرانجام نہیں دیا جسے عوام یاد رکھ سکیں، ان کے اندر سوجھ۔۔۔میں!میں! عوام ہی کی نہیں ان کی اپنی آواز پر بھی بھاری ہے۔ بھٹو مرحوم جنرل ایوب خان کو احتراماً ڈیڈی کہا کرتے تھے، اختلاف اور رنجش کے باوجود جنرل ایوب خان کی تصویر جو ان کے کمرے میں آویزا تھی کبھی نہ ہٹائی کیوں کہ بھٹو مرحوم سماجی اور سیاسی اخلاقیات سے آگاہ تھے۔ اخلاقیات کی اہلیت کے گرویدہ تھے، میاں نواز شریف کی نظر میں اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں، وہ جنرل ضیا الحق سے متاثر تھے اور برملا اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے مگر جنرل صاحب کی ناگہانی موت کے بعد ’’تْو کون اور میں کون‘‘ کی تصویر بن کر رہ گئے۔ اب وہ جنرل ضیا الحق کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب جو وزیراعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ کہلوانا پسند کرتے ہیں انہوں نے اپنی خدمات کو مذاق بنا رکھا ہے، کبھی ہسپتال کی پرچی فیس5 روپے ، کبھی ایک روپیہ اور کبھی مفت، حالاں کہ پرچی فیس 5 روپے ادا کرنے سے غربت میں اضافہ نہیں ہوتا مگر جب اختیارات کو مذاق بنا لیا جائے تو ایسے ہی تماشے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس شعبدے بازی کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ شاید مصنوعی اکثریت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والے رہنمائی کی دعویدار عوام کو ذہنی اذیت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
ٹی وی پر طلبہ سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ جمہوریت نہیں تو پھر کیا؟ مگر اس سوال سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جمہوریت ہے کہاں؟ اگر جمہوریت اصل صورت میں نافذکردی جائے تو یہ نظام سبھی کو قابل قبول ہوگا اوریہ ثابت ہوجائے گا کہ عوام کے سوا کوئی بھی اصل جمہوریت کا طلب گار نہیں اور جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے تو وہ تو اپنی پارٹی میں بھی جمہوریت نہیں چاہتے، ملک میں جمہوریت کو کیسے گوارا کریں گے۔ بعض طلبہ نے اسلامی نظام کی بات کی تو اینکر صاحب نے فرمایا کہ دنیا میں 58 ملک اسلامی ہیں مگر وہاں بادشاہت ہے اور اکیس ویں صدی میں بادشاہت قابل قبول نہیں۔ مگر جمہوریت کے نام پر آمریت بھی تو ناقابل قبول ہے۔ جمہوریت کا مقصد عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے چلانا ہے جو لوگ جمہوریت کی جیم پر بھی عمل کرنے کو تیار نہیں وہ کس منہ سے لنگڑی لولی جمہوریت کو بہتر حکومت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں نہ کبھی جمہوریت تھی نہ اب ہے، اس جمہوریت نے عوام کو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے سوا کیا دیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں