وزیر اعظم قومی آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار اداکریں
شیئر کریں
عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی حکومت پر نوجوانوں کے لیے فنی تربیت کے زیادہ اور بہتر پروگرام شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مالی سال 2017 ءکے لیے پاکستان کی شرح نمو یا ’جی ڈی پی گروتھ‘ 5.2 فیصد تک ہو سکتی ہے، جو گزشتہ 9سال میں سب سے زیادہ ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2018ءمیں شرح نمو 5.5 فیصد جب کہ 2019 ءمیں یہ شرح مزید بڑھ کر 5.8 فیصد تک ہو سکتی ہے۔رپورٹ میں ملک کی معیشت میں بہتری کو ایک اچھی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ معیشت میں بہتری کے اس رجحان کے باوجود معاشی اصلاحات کی رفتار سست روی کا شکار ہے جس سے مستقبل کی ضروریات خاص پر نوجوان نسل کے لیے روزگار کے مواقع کی فراہمی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگی۔عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان کی کم وبیش 19 کروڑ کی آبادی میں سے 60 فیصد کی عمر 30 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے، اس لیے ملک میں مزید ”ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ“ یعنی فنی تربیت کے پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کے لیے روز گار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔رپورٹ میںملک کے مختلف شعبوں میں اصلاحات کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں پاکستان کی معاشی بہتری کے حوالے سے جو باتیں کی گئی ہیںاگرچہ وہ غلط نہیں ہیں اور ریکارڈ کے مطابق انہیں بالکل درست قراردیا جاسکتاہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملکی میعشت میں ہونے والی اس ترقی کے ثمرات ابھی تک عوام تک پہنچنا شروع نہیں ہوئے ہیں یا بوجوہ انہیں عوام تک پہنچنے سے روک دیاگیا ہے ،جہاں تک عالمی بینک کی رپورٹ میں اس ملک کے نوجوانوں کو ’ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ“ یعنی فنی تربیت کی فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت کے اظہار کاتعلق ہے تو اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے اس حوالے سے کچھ اقدامات کیے ہیں اور ان دونوں صوبوں کی حکومتوں نے مختلف شہروں میں فنی تربیت کے ادارے کھولے ہیں،پنچاب اوربلوچستان میںبھی اس نوعیت کے متعدد ادارے کام کررہے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں میںماہر اساتذہ اور تربیت کار مقرر کیے جائیں اور ان اداروں کوجدید دور کی مشینری اور سازوسامان سے لیس کیاجائے تاکہ ان اداروں سے تربیت حاصل کرنے والے نوجوانوں کو ملنے والی ڈگری ، ڈپلومہ یا سرٹیفیکٹ محض کاغذ کا ایک بیکار ٹکڑا ثابت نہ ہو اور وہ جس ادارے میں ملازمت کے لیے جائیں وہاں موجود مشینری اور آلات ان کے لیے اجنبی نہ ہوں ، لیکن اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم اور مختلف ہنر سکھانے سے قبل اس ملک کے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری ہے جبکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پڑھا لکھا پنجاب کی مہم چلانے والے وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی کے اپنے صوبے میں لاکھوں بچوں نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہے ،دیگر صوبوں میں صورت حا ل بھی اس سے بہتر نہیں ہے ، اس لیے حکومت کو ملک سے غربت کم کرکے اور سی پیک اور دیگر ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پیداہونے والے روزگار کے مواقع بھی ہمارے نوجوانوں کی معاشی حالت بدلنے میں کوئی کام نہیں آئیں گے ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملک میں کم از کم سیکنڈری تک کی تعلیم عام کرنے پر توجہ مرکوز کرے اور اگلے مالی سال کے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے نہ صرف یہ کہ زیادہ رقم مختص کی جائے بلکہ اس رقم کے منصفانہ اور شفاف استعمال کو بھی یقینی بنایا جائے۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اب جب کہ بہت سے انتظامی ا±مور کے اختیارات صوبوں کے پاس ہیں اور اس تناظر میں معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون اہم ہے لیکن عملی طورپر اس کافقدان نظر آتاہے اور اس کے برعکس ایسا نظر آتاہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کے حربے اختیار کرنے پر تلی ہوئی ہے اور وفاق کی جانب سے ان صوبوں میں جہاں اس کی مخالف پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہیں،ایسی صورت میں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔جمعہ کو قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ پاکستان کے اقتصادی اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی ہے ”جس کا اعتراف بین الاقوامی مالیاتی ریٹنگ ادارے بھی کررہے ہیں، پاکستان کا شمار اب تیزی سے ترقی کرنی والی معیشتوں میں ہوتا ہے۔“وزیراعظم کایہ بھی کہنا تھا کہ ”وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک کی ترقی کے لیے ہم آہنگی سے کام کر رہی ہیں۔“ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم اپنے قول کو درست ثابت کرنے کے لیے صوبوں کے ساتھ مکمل تعاون کریںاور ترقی کے ثمرات کو عوام تک پہنچانے میں مکمل تعاون کریں۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور ترقی کے ثمرات چاروں صوبوں کے عوام تک مساوی طورپر پہنچانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریںگے اور صوبوں کے ساتھ محاذ آرائی کی سیاست ترک کرکے مفاہمت اور ہم آہنگی کی سیاست کو فروغ دینے پر توجہ دیں گے۔