میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فارم 47 کی حکومت

فارم 47 کی حکومت

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۳ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

نااہلی کی زرخیزی نیچے سے نسل بڑھا رہی ہے، ذہانت کا بنجر پن اوپر سے نسلوں کا شیرازہ بکھیر رہا ہے۔ آئیے اگلے پانچ سال اسے طول دیتے ہیں، معاہدہ کرتے ہیں۔ یہ حکومت سازی کا معاہدہ ہے۔ فارم 47 والے اکٹھے ہیں۔ ان کے اوپر ذہانت کے بنجر پن کی شکار ایک سرکاری مخلوق، جن کے تباہ کن اقدامات پر حب الوطنی کا زرق برق ورق چڑھا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ خود کو قوم کا باپ بھی سمجھتے ہیں۔ ہوا میں خواہ مخواہ تلوار چلانے والے شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے۔ فضاؤں میں یہ بات موجود تھی۔ یہ بھی کہ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ہاتھ ہوا۔ برادرانِ یوسف والی ٹیسیں محسوس کرتے ہیں۔ میاں لطیف کا درد زیادہ ہے:۔
بے نام سا، یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
حیرت کی بات نہیں ، جب شہباز شریف دارالحکومت میں واقع زرداری ہاؤس جا کر اپنے ”حلیفوں” کے ساتھ معاہدے کا اعلان کر رہے تھے تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر کُہسار مارکیٹ اسلام آباد میں ایک دوسرا واقعہ پیش آیا۔ خواجہ سعد رفیق اور حنیف عباسی کو جہاں عورتوں سے” ووٹ چور، ووٹ چور” کے آوازے سننے پڑے۔ یہاں تک کہ خواتین سے گارڈ ہاتھا پائی پر اُتر آئے۔ فارم 45 کے مطابق پچاس پچاس ہزار ووٹوں سے ہارنے والے فارم 47 کے جعلی فارم سے فاتح قرار دیے گئے۔ زرداری نے دولت کے بل بوتے پر انتخابات خریدنے کا جو کھیل سندھ میں شروع کیا، اب پورے ملک میں ایک صنعت کے طور پر فروغ پا چکا ہے۔ نتائج میں ہیر پھیر کے لیے بولیوں کے عمل دخل کے حقائق ایک طرف رکھیں۔ کہسار مارکیٹ کی گونج پورے ملک میں ہے۔ ہاتھا پائی کا واقعہ ووٹ چور کی صداؤں کے ساتھ زیر بحث ہے۔ کون نہیں جانتا، حنیف عباسی کی نشست خطرے میں ہے۔ کہسار مارکیٹ کا واقعہ اوپری سطح کی ذہانت کے بنجر پن سے بکھرنے والی نسلوں کے شیرازے کی ایک جھلک ہے، ردِ عمل سے ظاہر ہے۔
کٹھ پتلیوں کے طور پر کام کرتے سیاست دان جانتے ہیں، وہ نااہلی کی زرخیزی سے بڑھی ہوئی نسل ہے، جن میں ”اضافہ” حقیقی نہیں ۔ وہ اپنے انتداب(مینڈیٹ) کی تمام تہہ داریوں سے آگاہ ہیں جو عوامی نمائندگی کی عکاس نہیں، بلکہ مخصوص حلقوں کی ”پسندیدگی” یا پھر کہیں ”مجبوری” کی پیداوار ہے۔ جعلی نمائندگی ہمیشہ ایک دھڑکا پیدا کیے رکھتی ہے۔ ”مجھے کیوں نکالا” کے آسیب میں جکڑی نون ہو، یا دو قبروں والی پیپلزپارٹی، اچھی طرح جانتی ہیں کہ فارم 47 کے نتائج بس ایک حکم کے ذریعے فارم 45 کے مطابق بدلے جا سکتے ہیں۔ پھر پاؤں کے نیچے زمین ہو گی نہ آسمان۔ ہم اُس طبقے میں شامل ہونے کی ”جہالت” نہیں دکھا سکتے، جن کی گزر اوقات ہی مصنوعی خیالات پر ہے۔ عیاں ہے، یہ معاہدہ مجبوری کی پیداوار ہے، جو قومی شعور کا مذاق اڑانے والے تینوں رہنماؤں کی بدن بولیوں سے عریاں ہے۔ حکومت کا اعلان کرتے ہوئے کیمرے کے عدسے میں دکھائی پڑنے والے تین رہنماؤں میں سے ایک وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو تھے، پنجوں کے بل کھڑے ہو کر خود کو بڑا ظاہر کرنے کی تگ ودو میں ہے۔ دوسرے آصف علی زرداری ہیں، کامیاب سودے بازی کی شہرت رکھتے ہیں مگر عملاً اوپر کے ایک حکم کی تاب بھی نہیں لا سکتے۔ تیسرے ہمارے نئے وزیراعظم ہیں، سولہ ماہ میں قومی قسمت کا کھیت بنجر کر گئے، اب دوبارہ مسلط کیے جا رہے ہیں۔ کسی کے چہرے پر خوشی نہیں، یہ پی ڈی ایم پارٹ ٹو کی رنگین فلم ہے۔ مگر نئی فلم میں کچھ ترمیم و اضافے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سسٹم کو ڈرانے کی بظاہر ایک غلط چال میں فی الحال ”سائیڈ رول” کے بھی قابل نہیں رہ گئے۔ بلوچستان میں متحدہ حکومت کا خواب سجائے نون لیگ کے در پر حاضری دی تو اسحق ڈار نے ٹکا سا جواب دیا، ”مولانا! آپ نے دیر کردی”۔ مولانا کو اب اپوزیشن کی ”اداکاری” کے بجائے شاید حقیقی اپوزیشن کرنا پڑے۔ تب اندازا ہو سکے گا حقیقت میں جے یوآئی میں دم خم کتنا رہ گیا۔ اُنہیں عدلیہ کے باہر جلسہ کرنے کی ”سہولت کاری” نئی حکومت سے اب نہیں مل سکے گی۔ کیونکہ ”بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں”۔ نا اہلی کی زرخیزی سے بڑھی ہوئی نسل مولانا کی ”کتاب الحیل” سے بہل سکتی ہے۔ مگر ایک نسل ایسی بھی تو ہے جو اُکتا گئی اور انسانی ہی نہیں، مصنوعی ذہانت کی تہہ داریوں تک میں جھانک رہی ہے جنہیں عارضی موقف کی لوریوں سے بہلایا نہ جا سکے گا۔ فضول اور مصنوعی خیالات پر انحصار کرنے والے سیاست دانوں کے تمام چہرے اپنے پورے مکروہ پن کے ساتھ بے نقاب ہیں ۔ جے یو آئی ہر طرف سے راستے نکالنے کی کوشش میں رہے گی، اگر حکومت دباؤ میں آ گئی تو شاید ان کی قسمت وقتی طور پر ساتھ دے سکے۔ مگر عملاً نئی سیاست میں مولانا بھی پیپلز پارٹی، نون لیگ اور ایم کیوایم کی طرح خرچ ہو چکے۔
پی ڈی ایم پارٹ ٹو فلم میں ایم کیو ایم بھی رونق بڑھائے گی۔ مگر ان کے چہرے اداکاری کے باوجود پھیکے ہی نظر آئیں گے، فارم 45 کے مطابق ایک نشست بھی نہ جیتنے والی جماعت کب تک طاقت کے انجکشن پر زندہ رکھی جا سکے گی؟ ایم کیو ایم کے رہنما جب کسی وضاحت کے لیے کیمروں کے سامنے آتے ہیں تو سب ایک دوسرے کے ساتھ اضافی لگتے ہیں۔ کون کس کے ساتھ ہیں؟ کس کے کیا پاس ہے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ یہ جماعت مکافاتِ عمل کی چکی میں باریک پِس رہی ہے، نشانِ عبرت بننے والے کا سب سے عبرت ناک مرحلہ وہ ہے جب اُسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مثالِ عبرت بن رہا ہے اور تاریخ کی اُلٹی حرکت کے نرغے میں ہے۔ بہت جلد سرخ لائن سمجھا جانے والا مصطفی کمال اثاثے سے ایک بوجھ بن جائے گا۔ دہکے ہوئے کراچی کو اِ ن بہکے ہوئے لوگوں سے کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا۔ تاریخ کی تمام قوتیں بے لگام ہیں اور کوئی طاقت کتنی ہی بڑی ہو، تاریخ کی لگامیں نہیں تھام سکی۔ کراچی میں ایک ردِ عمل پک چکا ہے، جسے ایک مناسب راستہ چاہئے۔ طاقت کے مراکز جس طرح یہ نہ جانتے تھے کہ ایم کیوایم کسی بھی انتخابی حلقے میں پانچ سے سات ہزار ووٹوں کی جماعت رہ گئی، وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کراچی میں دھاندلی کے خلاف ردِ عمل کتنا دہک رہا ہے؟ پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں کیسا الاؤ پک رہا ہے؟ جی ڈی اے نے سونگھ لیا اور پہلی مرتبہ عوامی سیاست کر رہی ہے۔ عوام کی زبردست پزیرائی نے جی ڈی اے کو”طفیلی کردار” سے اوپر اُٹھا دیا ۔ اب وہ کسی پر” انحصار کرنے” کی پرانی روش ترک کرنے کی جانب گامزن ہے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ مراکزِ طاقت کے پنگھوڑوں میں پڑے رہنے والے، اپنے بل بوتے پر اپنے زمین و آسمان پیدا کرنے کی طرف مائل ہو ں گے۔ جی ڈی اے، تحریک انصاف اورجماعت اسلامی کے ساتھ مل کر کراچی و سندھ میں مشترک جدوجہد شروع کرنے جا رہی ہے۔ یہ سندھ کی سیاست میں ایک کایا پلٹ تحریک ثابت ہو سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیے سندھ پہلے جیسا نہیں رہے گا اور یہ کہنے کی ضروت ہی نہیں کہ اس کے اثرات ملک گیر ہوں گے۔
کٹھ پتلیاں معاہدے کر چکیں، مگر یہ حکومت فارم 47 کی کہلائے گی، شہباز شریف وزیراعظم کا حلف اُٹھا کر پارلیمنٹ میں جس پہلی آواز کو سنیں گے، وہ ہوگی، فارم 47 کا وزیراعظم۔ معاہدہ صرف حکومت سازی کا نہیں ہے، یہ ہر روز بار بار سمجھوتے کرنے کا معاہدہ ہے، جس کے ذریعے روزانہ ہی مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کی مشق جاری رہے گی۔ سب سے بڑھ کر اڈیالہ جیل کا قیدی ہے، جو وقت کے کسی بہاؤ میں بہنے کے بجائے اپنی سمت، اپنی منزل اور اپنا بہاؤ خود طے کرتا ہے۔ اُس پر کوئی روایتی فارمولا موثر نہیں۔ یہ بندوبست سنبھالا ہی نہ جا سکے گا۔ معاہدہ کرانے والے، نظام کے رکھوالے کسی روز چیخ اُٹھیں گے:۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں